2 Jailer, 1 Zindagi
دو جیلر، ایک زندگی
"ایک اور کتے کا بچہ آگیا"، جیلر نے عمر قید کے قیدی کو جیل میں دیکھ کر آواز لگائی، قیدی کے تن بدن میں آگ لگ گئی، لیکن وہ خون کے گھونٹ پی کر خاموش ہو گیا، جیل سپریڈنٹ کی یہ پرانی عادت تھی، قیدی چاہے عمر قید کا ہو، پھانسی کا یا کسی اور سزا کا، اس کو انتہائی گندے، بیہودہ اور گھٹیا لفظوں اور جملوں سے بلانا جیلر کا محبوب مشغلہ تھا، "کتے کا بچہ" جیلر کی گالیوں میں سب سے نرم جملہ تھا، وہ خود کہتا تھا کہ جس پر مجھے ترس آئے اسے میں اس لفظ سے بلاتا ہوں۔
یہ پاکستان کی ایک مشہور اور خوفناک جیل ہے، یہاں اکثر جیلر حضرات بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں، میں نے کچھ روز قبل ہی موجودہ سپریڈنٹ جیل کو قیدیوں سے ملنے کی درخواست کی تھی، جسے خوش دل جیلر صاحب نے قبول کرتے ہوئے مجھے قیدیوں سے ملنے کا موقع دیا۔
اس دورے میں کئی قیدیوں سے ملاقات ہوئی، لیکن ایک قیدی کی باتیں میرے دل و دماغ میں اتر گئیں، قیدی عارف حسین نے دو پرانے جیلر صاحبان کے بارے میں چند باتیں اور چند یادیں بتائیں۔
عارف نے دوبارہ کہنا شروع کیا، وہ افسر اس جیل کی تاریخ کا سب سے بد تمیز جیلر تھا، قیدی اس کو دل سے بد دعائیں دیتے تھے، جب اسکو اس بارے پتہ چلا، تو اس نے زور سے قہقہہ لگا کر کہا، "ان حرام زادوں کی بد دعائیں مجھے نہیں لگتیں"۔
اُس سے پہلے اس جیل میں تعینات جیلر صاحب اس سے بالکل الٹ طبعیت کے تھے، انتہائی ملنسار، نیک، نرم گو اور انتہائی خوش اخلاق، ان جیلر صاحب کے دور میں بہت سے قیدیوں نے لکھنا پڑھنا شروع کیا، بہت سوں نے میٹرک، ایف اے، بی اے، حتیٰ کہ ایم اے کی ڈگری بھی حاصل کیں، میں نے بھی اسی دور میں ایم اے کیا، کئی ایک نے مختلف ہنر سیکھے، اور جیل کے اندر مختلف چیزیں بنانے لگے، جیرل صاحب نے ایک کاروباری شخصیت کو بلا کر ان سے ملوایا، اس کاروباری شخصیت نے ان ہنر مندوں کو برانڈ بنانا سکھایا، پڑھے لکھے قیدیوں نے ان کی مدد کی، اور جیل کے اندر سزائے موت اور عمر قید کے قیدی کاروباری شخصیات میں ڈھلنے لگے، کئی قیدیوں نے قرآن پاک حفظ کرلیا، حافظ قرآن قیدیوں کا جیلر صاحب بہت احترام کرتے تھے، کبھی کبھار ان کے لئے اپنے گھر سے کھانا بنوا کر لے آتے تھے۔
"آج کل دونوں جیلر صاحب نے کہاں ہیں "، میں نے عارف کے خاموش ہوتے ہی سوال کیا، قیدی نے اپنے پاؤں کی زنجیروں سے کھیلتے ہوئے دوبارہ کہنا شروع کیا، "خوش اخلاق جیلر صاحب کے بچے انتہائی فرمانبردار اور قابل تھے، ان کا ایک بیٹا سی ایس ایس آفیسر، بیٹی ایم بی بی ایس ڈاکٹر اور ایک بیٹا یورپ میں کاروبار کرتا ہے، کچھ دن پہلے جیلر صاحب ہمیں ملنے آئے تھے، تو بتا رہے تھے کہ اب ان کے اس بیٹے کا کاروبار یورپ کے تقریباً ہر شہر میں پھیل چکا ہے، یہ سن کر ہم سب قیدیوں نے زنجیروں والے ہاتھ اٹھا کر دل سے ان کے لیے اور ان کی اولاد کے لیے دعائیں کی تھیں۔
"اور وہ دوسرے والے جیلر صاحب"، میں نے پوچھا، قیدی نے ناراض آنکھوں سے میری طرف دیکھا، "وہ صرف جیلر تھا، اس کو صاحب مت بولو"، اس کی اولاد انتہائی نکمّی اور آوارہ نکلی، ایک لڑکا غضب کا شرابی، آئے روز محلے والوں سے لڑتا، طیش میں آکر اپنے کسی رشتہ دار کو قتل کر کے اسی جیل میں عمر قید کاٹ رہا ہے، ایک لڑکی تھی، سنا ہے گنوار اور اُجڈ تھی، روز سسرال والوں سے لڑ کر میکے آجاتی تھی، جیلر ہر بار ہاتھ جوڑ کر صلح کرواتا تھا، لیکن نتیجہ طلاق کی صورت نکلا، ایک چھوٹا لڑکا سنا ہے پولیس میں بھرتی ہوا، لیکن وہ بھی رشوت کے جرم میں نکال دیا گیا، سنا ہے آج کل حیدرآباد جانے والی بس چلاتا ہے۔
قیدی نے مزید بولنے کے لئے منہ کھولا، تو اندر سے ٹَن ٹَن کی آواز آئی، وقت ختم ہوچکا تھا پیچھے کھڑے سپاہی نے قیدی کو اندر جانے کا اشارہ کیا، قیدی نے مجھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا "یہ دونوں واقعات اپنے پڑھنے والوں کے لئے ضرور لکھئے گا، تاکہ لوگ اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ کس طرح ہمارا آج ہمارے کل یعنی ہماری اگلی نسل پر اثر انداز ہوتا ہے، آخری جملہ ختم کرتے کرتے قیدی اپنی کال کوٹھری کی طرف چل دیا۔
جیل سے واپس دفتر آتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ جیل میں کالی، تاریک اور بدبودار کوٹھریوں میں بسنے والے بھی خوشبودار اور روشن دماغ رکھتے ہیں، بلاشبہ وہ جرم کر کے ان کال کوٹھریوں میں گئے لیکن ان کے اندر کے انسان کو جگانا ریاست اور معاشرے کی مشترکہ ذمہ داری بھی تو ہے، کیا ریاست اور معاشرہ تھوڑا وقت نکال کر اس بارے میں سوچیں گے۔