Ye Field Larkiyon Ke Liye Nahi Hai
یہ فیلڈ لڑکیوں کے لیے نہیں ہے
یہ فیلڈ لڑکیوں کے لیے نہیں ہے۔۔! بظاہر لڑکی ہونے کے ناطے یہ جملہ کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے لیکن کیا کروں لڑکی ہوں کچھ کر نہیں سکتی۔
بس لڑکی یہی بات اپنے دماغ میں لیے گھومتی ہے۔ لڑکی صرف جنس اور اسلامک کلچر کے چند اقدار کے مختلف ہونے کی وجہ سے مرد حضرات سے کچھ قدم پیچھے ہو جاتی ہے۔ اور اسی وجہ سے ذہانت کا کوئی حساب نہیں کر پاتی کیوں کہ وہ مرد کی طرح جسمانی طور پر مضبوط اور طاقتور نہیں ہوتی لیکن یہ کہاں لکھا ہے کہ لڑکی کسی ایسے شعبے میں نہیں جاسکتی جہاں اُس کو مشقت کرنی پڑے، گھر سے باہر نکل کر کام کرنا پڑئے، اور مختلف مزاج کے لوگوں یعنی مردوں کے درمیان اٹھنا بیٹھنا اور کام کرنا پڑئے۔
لڑکی کا تعلیم یافتہ ہونا آج کل کے دور میں بہت ضروری ہے کیونکہ آج کل کے معاملات پرانے دور کے معاملات سے کئی گنا بڑھ گئے ہیں، لہذا ان کا مقابلہ کرنے کے لیے لڑکی کا تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہو چکا ہے۔ اگر ہم آج سے کچھ سال پیچھے جائیں تو ہمارے پیارے نبی ﷺ کی بیگمات بھی مختلف شعبوں سے وابستہ تھیں۔ میں دو یا تین ام المومنات کے بارے میں تھوڑا سا بتاؤں گی جن میں سے ایک۔۔ حضرت خدیجہؑ جو کہ مکہ میں قریش قبیلے کی لیڈر تھیں اور اس کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب بزنس وومن بھی تھیں۔
دوسرا۔۔ حضرت عائشہؓ جو کہ نبی کریم ﷺ کی تیسری بیوی تھیں اور ان کی عمر سب سے چھوٹی تھی لیکن پھر بھی ماشاءاللہ وہ بہت ذہین تھیں۔ ان کو مختلف مضامین جیسے شاعری اور ادویات میں کافی علم تھا اور اس کے علاوہ ان کا شمار اسلامی سیاست میں بھی تھا اور اس ہی دوران انہوں نے پہلی تین خلافتیں بھی سنبھالیں جن میں سے ایک حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر، اور حضرت عثمان کی تھی۔ تیسری حضرت زینب بنت جحشؓ ٹینر اور چمڑے کی دشکاری کا کام کرتی تھیں اور نبی کریم ﷺ کے ساتھ شادی کرنے کے بعد بھی انہیں نے اپنا یہ کام جاری رکھا۔ اس کام سے حضرت زینبؓ کو جتنا بھی منافع ہوتا تھا وہ سب آپ خیرات میں دے دیتی تھیں۔
فہرست ابھی بھی باقی ہے لیکن ان چند ام المؤمنین کو متعارف کروانے کا اصل مقصد یہ ہے کہ یہ بھی عورت ذات ہی تھیں اور ہر شعبے میں انہیں نے اپنی ذہانت دیکھائی اور مہارت حاصل کی۔ لوگوں نے ان پر بھی غلط باتیں کرنے سے گریز نہ کی لیکن اس کے باوجود انہیں نے کام کیا اور اپنا نام بنایا کیونکہ وہ سب یہ بات جانتی تھیں کہ یہ طاقتور عورتیں کچھ غلط نہیں کر رہیں اور دوسری بات جب اللہ تعالٰی ان کی حفاظت کرنے کے لیے ان کے ساتھ ہے تو لوگوں کے فضول تہمتیں سے کیا ڈرنا۔ اور پھر لوگ کون ہوتے ہیں کسی کے بارے میں غلط گمان رکھنے والے لہذا شعبہ کوئی بھی ہو مرد اور عورت دونوں کے لیے قابل عزت اور کمائی کا ذریعہ ہے۔
جو لوگ اکیسویں صدی میں یہ جملہ استعمال کرتے ہیں کہ "یہ فیلڈ لڑکیوں کے لیے نہیں ہے" قسم سے وہ آج کل کے دور سے آگاہ ہی نہیں ہیں یا تو پھر ان کا تجربہ کوئی اتنا اچھا نہیں رہا جو دوسروں کو غلط مشورے دیتے پھرتے ہیں۔ دنیا کی ایسی کون سی جگہ ہے جہاں عورت کام نہیں کرتی۔
ہاں ایک بات میں واضح کرتی چلوں کہ مرد اور عورت جہاں بھی جائیں اپنی حدوں کو سامنے رکھ کر اپنے شعبوں کی ترقی کو انجوائے کریں کیونکہ عورت کی عزت بہت نازک ہوتی ہے۔ اس طرح نازک ہوتی ہے جیسے کوئی سفید کپڑا ہو جیسے سفید کپڑے پر جب داغ لگے تو کپڑا گندا ہو جاتا ٹھیک ایسی ہی عزت بھی کپڑے کی طرح پامال ہو جاتی ہے۔ اور جہاں تک بات مرد کی ہے مرد کو بھی اپنا تحفظ کرنا اچھے سے آنا چائیے کیونکہ ایسا نہیں ہے کہ صرف عورت زات ہی کریکٹر اسسنیشن کا شکار ہو بلکہ مرد بھی ہوتا ہے۔
لفظ "عورت" پر تمہید باندھنے کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ میں"عورت مارچ" یا پھر "فمینزم" کی حمایتی ہوں۔ میرا ان دونوں موضوعات سے کوئی لینا دینا نہیں اور نہ ہی میں یکطرفہ ہو کر ان کے بارے میں سوچتی ہوں بحثیتِ ایک صحافی ہونے کے ناطے مجھے چیزوں کو غیر جانبدار طور پر دیکھنا اور سمجھنا پڑتا ہے۔ اس لیے میں ایک بڑے پیمانے پر بات کر رہی ہوں۔
دن با دن، لمحہ با لمحہ زندگی تیزی کا دامن تھامے گزر رہی ہے کل کیا نئی تبدیلی آ جائے کوئی نہیں جانتا تو یہ کہنا بہت ہی نہ مناسب بات ہے کہ یہ فیلڈ لڑکیوں کے لیے نہیں ہے۔ اصل میں میرا آج اس موضوع پر کالم لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ لڑکی کو یہ کہہ کر حالاتِ زندگی سے محروم کرنے کے مترادف ہے کہ "یہ فیلڈ لڑکیوں کے لیے نہیں ہے"۔ جیسا کہ پچھلے کالم میں، میں نے اپنا ایک میڈیا کے ادارے میں کام کرنے کا تجربہ شیئر کیا تھا آج پھر اسی کے مزید لمحات کا انکشاف کروں گی۔ ایسے لمحات جن کا عموماً طور پر ہر لڑکی کو سامنا کرنا پڑتا ہے اور ہر شعبے میں سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ لمحات میں اس کالم میں ایک قصے کے زریعے واضح کروں گی۔
جیسا کہ میں ایک میڈیا کے ادارے میں بطور انٹرنی کام سر انجام دے رہی تھی تو یوں ہوتا ہے کہ تقریباً دو مہینے کی انٹرنشپ ہوتی ہے جس میں سے ایک مہینہ کرنٹ افیئرز میں لگایا جاتا ہے اور دوسرا مہینہ نیوز میں لگایا جاتا ہے۔ تو میں نے اپنا کرنٹ افیئرز میں وقت پورا کیا تو مجھے اکسائٹمنٹ ہوئی کہ میں اب نیوز ڈیپارٹمنٹ جاؤں گی اور وہاں جا کر میں خوب خبریں تحریر کرنے کے بارے میں سیکھوں گی مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ افسوس۔۔!
کرنٹ افیئرز ڈیپارٹمنٹ میں لوگ کافی اچھے اخلاق کے مالک تھے تو وہاں کام کرنے کا مزہ بھی آتا تھا اور کافی نئی چیزیں بھی سیکھتی تھی۔ بل آخر ایک دن کرنٹ افیئرز ڈیپارٹمنٹ میں وقت پورا ہوا تو مجھے نیوز ڈیپارٹمنٹ میں منتقل ہونا پڑا۔ نیوز ڈیپارٹمنٹ گئی تو وہاں ایک کیبن میں دو تین سر بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے اور مجھے انہیں نے باہر انتظار کرنے کو کہا، میں باہر بیٹھی تو انہی میں سے ایک سر میرے پاس آئے اور کہنے لگے آپ کیا کرنا چاہتی ہیں، کیا شوق ہے آپ کا؟ میں نے بتایا کہ مجھے صحافت اور نیوز کاسٹنگ میں جانے کا شوق ہے۔ تو وہ آگے سے مسکرائیے پھر مجھے انہیں نے کہا اُدھر سسٹمز لگے ہوئے ہیں تو آپ وہاں جا کر رائٹرز (Reuters) کھول کر اس میں سے خبریں تلاش کریں اور ان کو اردو میں ٹرانسلیٹ کر کے ایک خبر تیار کریں۔
میں ایک دم چونک گئی کہ یہ ہو کیا رہا ہے بل آخر میں نے ایک خبر نکالی اور اس کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کی۔ آخر میں تنگ آکر میں نے ساتھ ہی میں ایک اور بڑی عمر کے سر بیٹھے اپنا کام کر رہے تھے ان کو مخاطب کیا کہ مجھے سمجھائیں اور سکھایں پہلے تو انہوں نے اپنی بڑی عمر کا فائدہ اٹھایا کہ ان کو آواز نہیں آئی۔ پھر جب میں نے اداسی کے عالم میں مخاطب کیا تو پھر بولے۔ اور سب سے پہلے انہوں نے بھی وہی سوال کیا جو پچھلے سر نے کیا تھا اور میں نے بھی وہی جواب دیا جس پر مجھے یہ کہا گیا کہ پاکستان کی صحافت، صحافت نہیں ہے پاکستان میں صحافت کا کوئی دائرہ کار نہیں ہے۔
پھر اسں ہی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے دوسرے سر بھی بولے کہ بیٹا آپ یا تو اپنی فیلڈ چینج کر لو یا تو پھرماس کمیونیکشن میں ایم ایس کر کے پی ایچ ڈی کر لو اور ٹیچنگ والی طرف نکل جاؤ۔ یہ فیلڈ لڑکیوں کے لیے نہیں ہے۔ دو تین دن بعد پھر ایک اور بندے نے یہی بات کی کہ فیلڈ چینج کر لو یہ فیلڈ لڑکیوں کے لیے نہیں ہے۔ اس بات نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ آخر لڑکی ہی کیوں یہ سب سنتی ہے۔ ایسا کوئی شعبہ نہیں جس میں لڑکی نہ ہو، عورت اگر تعلیم حاصل کر رہی ہے تو یہ اس کا حق ہے کہ وہ اپنی ذہانت اور تعلیم کو اُس کی اصل جگہ استعمال کرے۔ نہ کہ ڈگری لے کر الماری میں رکھ دے۔
اس زندگی میں عورت کا کیا کردار ہے یہ وہ اچھے سے جانتی ہے اور اللہ تعالٰی نے عورت میں ہر طرح کا فارمولا (Formula) ڈالا ہوا ہے۔ عورت کوئی ڈگری نہ بھی لے تو وہ ہر شعبے کو ضرورت پڑنے پر سمجھ جاتی ہے۔ ڈگری تو بس دنیا کی ریت و رواج ہے جیسے پورا کرنا ہے۔