Insan Tu Kya Hai?
انسان تُو کیا ہے ؟
اس زندگی میں انسان کی مثال ایسی ہے جیسے برسوں سے کسی سرکاری کمپنی میں ملازمت کر رہا ہو اور ساٹھ یا ستر سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ کا حامل ہو جائے۔ ٹھیک ویسی ہی زندگی سے بھی ریٹائرمنٹ مل جاتی ہے جب اللہ تعالٰی کی کتاب میں انسان کی مدت پوری ہو جاتی ہے اور وہ اس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ پھر انسان تُو کیوں غرور کرتا ہے؟
کیوں زندگی کی آسائشوں اور ترقیوں کی زنجیروں میں جکڑے رکھا ہے خود کو تُو نے؟ انسان تُو غرور تب کر جب تجھے اس مٹی کی گہرائیوں تک نہ جانا ہو، یا تجھے مٹی کے وجود کا حصہ نہ بننا ہو۔ جب حقیقت سامنے ہے تو اس اصلیت سے گمان کیسا، حقیقت کو دیکھتے ہو مگر انسانیت کی حوانیت سے دلبراشتہ ہو کر نظریں پھیر لیتے ہو۔
قرآن پاک کی آیات کا ترجمہ "لیکن تم تو دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو"۔
ہم پیسے اور شہرت کی لپیٹ میں آ کر زندگی کو ترجیح دینے لگ جاتے ہیں اور اس حد درجہ ترجیح دینا شروع کر دیتے ہیں جیسے اس دنیا میں صرف ہمارا راج ہے۔ لفظ "انسان" پر تمہید باندھنے کی مختلف وجوہات ہیں اور آج میں اس کالم میں انسانیت کی اصلیت اور اپنے آنکھوں دیکھے حال پر روشنی ڈالوں گی۔ پہلی وجہ۔۔ وجود کو ہلا دینے والا منظر۔۔ ایک مرتبہ کا ذکر ہے مجھے یونیورسٹی جانا تھا تو میں نے یونیورسٹی جانے کے لیے ان ڈرائیور کروائی اور ڈرائیور مجھے لینے آیا، اور میں اُس کے ساتھ چل پڑی۔
میرے گھر کے راستے میں یوٹرن آتا ہے ادھر اکثر اوقات مانگنے والے کھڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ ڈرائیور وہاں سے یوٹرن لے ہی رہا تھا کہ اچانک ایک بزرگ خاتون چادر پھیلائے بھیک مانگ رہی تھی اور ایک دم گاڑی کے قریب آگئی، اول تو ان ڈرایورز کو میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ وہ کسی غریب کو پیسے دیں لیکن اُس دن والے ڈرائیور نے اُس بزرگ خاتون کو پیسے دئے۔ اب بات یہ ہے کہ اُس نے پیسے دئے نہیں بلکہ اُس پر پیسے پھینکے اور یہ بات مجھے سخت ناگوارا گزری۔ اور سوچا کہ اللہ کے پاس خزانوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے، اللہ نے آج تک انسان کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا تو پھر انسان تیرے پاس تو کچھ نہیں جو ہے سب اللہ کا دیا ہوا ہے پھر تو کیوں اپنے امیر ہونے پر غرور کرتا پھرتا ہے۔
انسان کی انسانیت صرف وہیں تک محدود رہتی ہے جہاں اُسے کسی سے کام لینا ہو حتہ کہ وہ کوئی غریب ہی کیوں نہ ہو۔ اس کا مزاج ایسے ہو جاتا ہے جیسے جلیبی کی چاشنی ہو، ورنہ یہ انسان خود کے علاوہ کسی دوسرے کو انسان سمجھتا ہی نہیں۔
کتنا بے حس ہے انسان دو چار پیسے جیب میں آجائیں تو خود کو بہت بڑا سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ غریب بھی اللہ کے لیے ویسی ہی ہیں جیسے امیر، یہ تفرق بازی کرنا انسانوں کی تخلیق کردہ معیارات ہیں۔ امیر بھی ویسی زندگی گزار رہا ہے جیسے غریب گزارتا ہے فرق صرف اتنا ہے امیر پیسوں کو اہمیت دے رہا ہے اور غریب رشتوں اور انسانیت کو اہمیت دے رہا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ امیر طبقے کے پاس اتنی آسائشیں ہیں کہ اگر وہ محنت نہ بھی کریں تو انہیں ہر چیز میسر ہو جاتی ہے جب کہ غریب کو ضرورت سے زیادہ محنت اور مشقت کرنی پڑتی ہے۔ لیکن کچھ غریب ایسے بھی ہیں جو بلکل ہی لاچاری کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور اپنے گھر کے اجیرن زدہ حالات کی وجہ ہاتھ پاؤں پھیلانے پر مجبور ہو جاتے ہیں لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے جس کے یہ قابل نہیں۔
دوسری وجہ۔۔ انسان کی شہرت! یہ ایک ایسا نشہ ہے جو انسان کو حقیقت سے بلکل ہی دور کر کے کسی دوسری دنیا لے جاتا ہے۔ جہاں اونچائیاں کے علاوہ کچھ اور دکھائی نہیں دیتا ایسے میں وہ اپنے سے نیچے کے لوگوں کو ترجیح دینا چھوڑ دیتا ہے یا پھر حقارت کی نظروں سے دیکھتا ہے کہ کہیں وہ بندہ اُس کی برابری نہ کرنا شروع کر دے۔
انسان شہرت کے نشے میں اتنی بُری طرح گرفتار ہو جاتا کہ پھر اُسے کسی اور بات کی فکر ہی نہیں رہتی وہ یہ بھی سوچنے کی زحمت نہیں کرتا کہ اگر وہ کسی کے ساتھ تلخ لہجے میں بات کرتا ہے تواس کا دوسرے بندے پر کیا اثر ہو گا۔ ایسے لہجے عموماً ہر انسان میں پائے جاتے ہیں لازمی نہیں کہ کوئی مشہور یا بڑی ہستی ہی ہو لیکن یہاں شہرت سے شکایت ہے۔
یہ چند ماہ پہلے کا ہی واقع ہے میں انٹرنشپ کے سلسلے میں ایک دفتر گئی اور وہاں کا ماحول میرے حساب سے کچھ مختلف تھا حالانکہ ایسا بھی نہیں تھا کہ میں نے اس طرح کا ماحول پہلے نہ دیکھا ہو لیکن پھر بھی میں کافی ہچکچائی۔ بل آخر میں آہستہ آہستہ لوگوں میں گھلنا ملنا شروع ہوئی اور کام میں دل لگانے لگی۔ میں ایک میڈیا کے ادارے میں بطور انٹرنی گئی تھی وہاں ایک انٹرنی ہونے کے ناطے مجھے ہر کام سیکھنا تھا لیکن اس کے علاوہ مجھے صحافت اور نیوز کاسٹنگ میں مہارت حاصل کرنے کا بہت شوق تھا جس کی وجہ سے میں نے چاہا کہ میں کسی اینکر یا کسی نیوز کاسٹر سے ملوں اور بات کروں۔
میں نے ایک خاتون اینکر سے بات کرنی چاہی اور انہوں نے مجھے ہر بار ٹال دیا اب میں بطور انٹرنی صرف کچھ ٹپس لینا چاہتی تھی۔ لیکن اس بات نے میرا دل توڑ دیا کہ انسان ایسے کیسے کیسی کو نظر انداز کر سکتا ہے اگر انسان کو شہرت ملی ہے تو وہ بھی اللہ کی وجہ سے ملی ورنہ انسان خود کچھ نہیں کر سکتا۔ اللہ جب چاہے انسان کا غرور مٹی میں روند سکتا ہے پھر انسان تُو کیوں غرور کرتا پھرتا ہے؟
آج انسان اتنی شان میں ہے کل کو اسے جب اُس سفر کے لیے روانہ ہونا پڑے گا تو اس کے پاس سوائے غرور اور تکبر کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا۔ انسان اپنی اصلیت سے بے خبر ہے، خود کو جانے سے پرہیز کرتا ہے کیونکہ اگر خود کی حقیقت جان گئے تو اسے قبول کرنا مشکل ہو جائے گا۔
یہ دنیا ایک سٹیج پروگرام کی مانند ہے یہاں ہر کوئی آتا ہے اور اپنا کردار ادا کر کے چلا جاتا ہے اب چاہے وہ منفی کردار ہو یا مثبت کردار ہو کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دوسرا بندہ اس کے کردار سے کسے اثر انداز ہو رہا ہے۔ اور فرق نہ پڑنے کی اصل وجہ یہی ہے کہ لوگ تکبر اور اناپرستی کا شکار ہیں۔