Thursday, 19 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Yousra Shaykh
  4. Meri Zaat Bohat Eham Hai

Meri Zaat Bohat Eham Hai

میری ذات بہت اہم ہے

زندگی ایک ایسا تھکا دینے والا سفر ہے جس کو جتنا نصیب میں ہے انسان کو گزارنا ہے۔ اس سفر کے دوران انسان دھوپ بھی دیکھتا ہے اور چھاؤں بھی۔ مشکلات بھی برداشت کرتا ہے اور خوشیوں کو خوش آمدید بھی کہتا ہے۔ اس دنیا کا دستور ہے جو گرتا ہے اس کو اٹھانے تو کوئی نہیں آتا بلکہ آتے جاتے ایک ایک دفع پھر دھکا دینے والے ہزاروں ہمارے اپنوں میں سے ہی ہوتے ہیں جو بس یہ سوچتے ہیں کہ کہیں مشکلات میں گھیرا ہوا ہمارا رشتہ دار دوبارہ اُٹھ کر ہمارے مقابلے پر نا آجائے۔

یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ دکھ میں تو سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے تو ہم اپنے دوستوں اور رشتوں سے بھلا کیا شکوا کرے۔ لیکن جناب دل کا کیا کریں جو دُکھتا ہے۔ برداشت نہیں کر پاتا جیسے تکلیف ہوتی ہے اپنوں کے دل برداشتہ روئیوں، طنز آمیز باتوں سے۔ لیکن یہ بات ہر کوئی سمجھنے سے کاسِر ہے۔ دل میں یہ سب باتوں کا غبار ایک ناثور کی طرح انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا۔ وہ ہار جاتا ہے مکمل طور پر ٹوٹ جاتا ہے۔

اس کی حالت ایک ایسے راستہ بھولِ پرندے کی جیسی ہو جاتی ہے جیسے رات کے اندھیرے میں کچھ سمجھ نہیں آتا کہ وہ کہاں جائے۔ ایسے مشکل وقت میں جب انسان بلکل اکیلا ہو جاتا ہے۔ اس کو کچھ سمجھ نہیں آتی وہ کیا کرے، کہاں جائے۔ تب اس ٹوٹے پھوٹے انسان کو اللہ دلاسہ دیتا ہے۔ وہ تو بہت بے نیاز ہے، رحمٰن ہے، وہ ہمارے زخموں پر ایسی مرحم لگاتا ہے کہ ہم دکھوں سے نڈھال جی اٹھتے ہے۔ اللہ فرماتا ہے "ہر مشکل کہ بعد آسانی" اور ہم بے خبر اور جلد باز لوگ اس حقیقت کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔

اللہ فرماتا ہے اے میرے بندے تو گمان کر میں تجھے عطا کروں گا۔ لیکن جلد باز انسان کو کیا پتہ گمان کرنا کیسے ہے۔ ہمارے ارادوں میں پختگی نہیں تو گمان کا تو لیول ہی الگ ہے۔ میری سمجھ کے مطابق یہ ایک لفظ انسان کو شعور سے لا شعوری کے عالم میں لے جاتا ہے۔ جس پر گمان کی حقیقت واضح ہو جائے تو گویا اس نے زندگی کا فلسفہ سمجھ لیا۔ ہماری زندگی سے جوڑے کسی کام میں تحمل مزاجی نہیں ہم ہر کام کو جلدی کرنا چاہتے ہیں۔ چاہے وہ ٹھیک ہو یا نہ ہو۔ بس ہم چاہتے ہیں کہ بلا سر سے اتر جائے یہی ہماری اولین غلطی ہے جسے ہم ہر روز جانتے بھجتے ہوئے کئی بار دھراتے ہیں۔ کہ ہم لوگوں پر بھروسہ کرتے ہیں ان سے مدد کی اُمید کرتے ہیں۔

اللہ کو بھولے بیٹھے ہیں جو بھروسے کے لائق ہے جو کبھی کسی کی امید نہیں توڑتا اور سب کچھ دے کر جتاتا بھی نہیں بلکہ اپنی رحمت کے سایہ میں سمیٹ لیتا ہے۔ ہم تو اتنے کھوکلے اور کمزور ہیں کہ دوسرے کی تکلیف کو اس کے کرموں کا پھل اور اپنی تکلیف کو آزمائش کہتے ہیں۔ سورہ ابقرا میں اللہ فرماتا ہے"کہہ دو میرے ان بندوں سے جو ہار گئے ہیں میں کسی بھی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ نہیں آزماتا"۔ ہمارا رب تو ہمیں آزماتا بھی ہماری قوت کے مطابق اور ہم اپنے آپ کو لوگوں کے حوالے کر دیتے ہیں اور پھر دُکھتے بھی ہیں ان کے ہتک آمیز رویوں پر۔ ان کے طرح طرح کے فتوں پر، اور اپنی جانوں کو روگ لگا بیٹھتے ہیں جس کی تکلیف صرف ہمارے بچوں کو پہنچتی ہے۔

باتیں کرنے والے تو کبھی نہیں رکے۔ تو پھر ہم کیوں ظلم کرتے ہیں اپنی جانوں پر؟ ہم کیوں خود کو اس ظالم دنیا کے حوالے کر دیتے ہیں؟ جس کا کام صرف ایذا پہنچانا ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو اہمیت دینی چاہیے۔ کوئی کچھ بھی کہتا رہے اگر آپ کو لگتا ہے آپ کا فیصلہ درست ہے اور اگر اس کی تصدیق آپ کا دل اورآپ کے ماں باپ کریں، وہ آپ کے ساتھ کھڑے ہوں تو بلا جھجک، وہ کام کریں۔ دنیا کی فکر مت کریں بس یہ جان لیں آپ اپنے ماں باپ اور اولاد کے لئیے بہت اہم ہیں۔ آپ کوپہنچنے والی تکلیف آپ کے ماں باپ کے دلوں کو تڑپا دیتی ہے اور یہ ایک حقیقت ہے اولاد کی تکلیف ماں باپ کی کمر توڑ دیتی ہے۔

آپ کی ذات بہت اہم ہے جو آپ کو دوسروں سے مختلف بناتی ہے۔ آپ کی ذات آپ کو آپ بناتی ہے، اور آپ کی خصوصیات اور تجربات آپ کو ایک مخصوص شخصیت دیتی ہے۔ اسلیئے دنیا کی فکر نہ کریں اللہ کو کبھی خود سے دور نا کریں۔ اس کو اہمیت دیں ااور پھر آپ خود دیکھیں گے وہ آپ کو کیسے عام سے خاص کر دے گا۔ آپ کی زندگی میں لگی ہر گِرہ وہ کھول دے گا۔ آپ کا ہر کام آپ کے لئے آسان کر دے گا۔

Check Also

Insaniyat Ki Rehnumai Ka Sarchashma

By Adeel Ilyas