Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rizwan Gormani
  4. Mazrat Ke Sath Maroozat

Mazrat Ke Sath Maroozat

معذرت کے ساتھ معروضات

قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے مایوس کیا۔ جب ان کے خلاف ریفرنس لایا گیا تو اک کالم لکھا تھا جس میں ان کے بولڈ فیصلوں کی مثال دے کر ان کو نشانہ بنائے جانے کی مذمت کی تھی۔ پاکستان کے تمام مسائیل کا حل عدل ہے جب امیر غریب دونوں کو جزا اور سزا فوری اور بروقت ملنا شروع ہوگئی سب ٹھیک ہو جائے گا۔

پاکستان کا کوئی بھی مسئلہ اٹھائیں اور اس پہ سوچتے جائیں اس کا حل عدل میں ملے گا۔ امید ہو چلی تھی کہ ان کے آنے سے عدلیہ ریاست کو فلاحی ریاست بنا کر چھوڑے گی۔ مگر افسوس کہ بہت سی خوبیوں کے باوجود یہ بھی انا کے قیدی نکلے۔ ریاست کے چار ستونوں میں سے دو ستونوں کے سربراہان عمران خان کی غلطی کی بدولت ان کے دشمن بن چکے ہیں۔ گو جمہوری نظام میں دونوں اداروں کے سربراہان کو غیر جانبدار ہونا چاہیے تھا مگر دونوں ذاتی پرخاش لیے بیٹھے ہیں۔

ایک ادارے کے سربراہ کا چلو سمجھ میں آتا ہے کہ چین آف کمانڈ کی مجبوری کی بدولت چاہتے نہ چاہتے انہوں نے اپنی دانست میں"نظام چلانا" ہوتا ہے مگر قاضی صاحب تو ایسے نہ تھے۔ مستقبل کے چیف جسٹس منصور علی شاہ سے ڈری ہوئی فارم 45 فارم 47 زدہ حکومت ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے کہ کم از کم ان کی مدت حکومت میں قاضی صاحب چیف جسٹس رہیں مگر آئین جمہوریت اور پارلیمان کی عظمت کے گن گان کرنے والے چیف جسٹس صاحب کو نومبر میں گھر چلے جانا چاہیے تھا۔

اپنی ایک پاؤ ونڈی کے لیے پورا اونٹ قربان کرانے چلے ہیں گویا اگلے تین سال ان سمیت تمام جسٹس صاحبان تنخواہیں مراعات گاڑیاں سیکیورٹی اور پنشن وصولیں گے ان تین سالوں میں نئے آنے والوں کے لیے راستہ بند ہوگا۔ جس نے نومبر میں چیف جسٹس بننا تھا اب وہ تین سال مزید انتظار کرے گا۔ قاضی صاحب نے ججز کو دھمکائے جانے والے خطوط کا کیا کیا؟

مرضی کے بینچ بنانے اور مخصوص جسٹس کو بینچ سے نکالنے سمیت ہر وہ کام کیا ہے جس کے خلاف وہ بندیال دور میں احتجاجاً خط لکھا کرتے تھے۔ ہم بندیال کے خلاف ان کے احتجاج کے حامی تھے اب ہماری ہمدردیاں جسٹس منصور علی شاہ کے ساتھ ہیں۔ عدم اعتماد کے بعد نوے دن میں انتخابات نہ ہونے سے لے کر تحریک انصاف کا نشان چھیننے ان کو مخصوص سیٹیں نہ دینے اور الیکشن کمیشن کی دیدہ دلیری سے مینج کیے گئے الیکشنز پہ کان لپیٹنا انتہائی مایوس کن ہے۔

عمران خان ذاتی طور پہ مجھے پسند نہیں۔ یہ باتوں کے شیر اور مطلبی اور موقع پرست انسان ہیں مگر اس کے باوجود حقیقت ہے کہ عوام نے انہیں مینڈیٹ دیا ہے۔ ذاتی پسند ناپسند اک طرف ہمیں جمہور کی رائے کا احترام کرنا چاہیے۔ آج بلاول کا آرمی چیف کے متعلق ٹوئیٹ کو لے کر قیدی نمبر 804 کو رگیدنا عجیب لگا۔ یہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہے کہنے والے قائد عوام کا نواسہ اور جمہوریت بہترین انتقام ہے کہنے والی دختر مشرق کا بیٹا ہے شہیدوں کی جماعت کا سربراہ جس نے اپنی سیاسی پختگی کی بدولت ہمیں خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیا تھا یہ وہ ہے جس نے آرمی چیف جنرل باجوہ کے دباؤ میں آنے سے انکار کرتے ہوئے منہ پہ کہہ دیا تھا کہ اگر آپ اس کو مزید آگے لے گئے تو میں مقدمہ لے کر پبلک میں چلا جاؤں گا۔

کیا قاضی فائز عیسیٰ یا بلاول بھٹو نہیں جانتے کہ تین سالہ توسیع کے قانون کو پاس کرانے کے چکر میں ووٹ پورے کرنے کے لیے کیا ڈرٹی گیم کھیلی جا رہی ہے کیا ان کو یہ خبر نہیں کہ دو دن سے تحریک انصاف کے ایم این اے کی بیٹی اور بیوی کو اغوا کرنے کی اطلاعات ہیں کیا ان کو پارلیمنٹ پہ نقاب پوشوں کا حملہ نظر نہیں آتا کیا ان کو عوام کے منتخب نمائندگان کو عبرت کا نشان بنایا جانا نظر نہیں آ رہا کیا ان کو خبر نہیں کہ کس طرح تحریک انصاف کے لیڈران کارکنان کے خلاف منظم کاروائیاں کی جا رہی ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ خان صاحب جمہوریت کے چیمپین نہیں ہم جانتے ہیں کہ خان صاحب نے چن چن کر محسنوں کو کھڈے لائین لگایا ہم جانتے ہیں کہ جب صفحہ اک تھا تو فیض و باجوہ قوم کے خیر خواہ تھے فوج ضروری تھی اور ترقی پسند غدار۔ مگر اس کے باوجود اگر ہم نواز شریف کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ سٹانس کو قبولیت کا درجہ دیتے ہیں مریم بی بی کے آگ اگلتے ٹوئیٹر کو سر آنکھوں پہ رکھتے ہیں حالانکہ وہ بھی بس اپنی ڈیل کے چکر میں تھے تو عمران خان کے لیے ہمارا معیار دہرا کیوں ہو جاتا ہے۔

خان صاحب عجیب طرز کے انسان ہیں جنہوں نے تعویز گنڈوں پہ اعتبار کیا ایک ایٹمی ریاست کے وزیر اعظم ہوتے ہوئے ایک پیرنی کی کٹھ پتلی بنے رہے۔ اب بھی انہیں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت یا آشیر باد سے انکار نہیں بس یہ آشیر باد ان کے لیے ہونی چاہیے مگر اس کے باوجود ہم جیسے جمہوریت پسندی کے دعویداروں کو عوامی مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہیے سیاسی مداخلت کی مخالفت کرنی چاہیے پولیس گردی ناجائز کیسز اور انتقامی سیاست پہ دم سادھے لیٹے رہنے کی بجائے نعرہ اعتراض لگانا چاہیے۔

Check Also

Khadim Hussain Rizvi

By Muhammad Zeashan Butt