Helmet Aur Awam
ہیلمٹ اور عوام
نبیل ہمارے پڑوس میں اپنے تین بچوں کے ساتھ انتہائی خوشحال گزار رہا تھا اور محلے والے ان کی زندگی پر رشک کرتے تھے۔ پھر ایک شام کو خبر آئی کہ ایک حادثے کے بعد وہ کوما میں چلاگیا ہے۔ معلوم ہوا کہ رات کو وہ بائیک پر آتے ہوئے سڑک پر بنے سپیڈ بریکر کو نہ دیکھ سکا اور ہیلمٹ کی عدم موجودگی میں سر کے سڑک پر براہ راست ٹکرانے سے موقعے ہی پر ہوش و حواس کھو بیٹھا اور پھر دو دن بعد وہ اس دنیا سے چلا گیا لیکن اب اس کی بیوہ اور بچے لوگوں کے آسرے پر جی رہے ہیں۔
دوسرا واقعہ میری آنکھوں کے سامنے پیش آیا جب ایک نوجوان تیزی میں بائیک پر قابو نہ رکھ سکا اور موٹر سائیکل کے گرنے پر بغیر ہیلمٹ کے اپنا سر فٹ پاتھ پر لگنے کے باعث موقعے پر ہی جاں بحق ہوگیا۔ متوفی چار بہنوں اور بیوہ والدہ کا اکلوتا کفیل تھا۔ اب اس کے بعد ان کے ساتھ کیا بن رہا ہوگا آپ سب کو اندازہ ہوگا۔
ظلم تو یہ ہے کہ اکثر چھوٹی عمر کے بچے بغیر ہیلمٹ کے بائیک کو اڑانے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں اور حادثے کی صورت میں ماں باپ دوسروں کو بددعائیں دے رہے ہوتے ہیں۔
ایک دفعہ میرے ساتھ یعنی بقلم خود مبشر عزیز کے ساتھ بھی حادثہ ہوا تھا اور میں باقاعدہ سڑک پر قلابازیاں کھاتا بہت دور تک گیا لیکن اللہ کے فضل اور ہیلمٹ کی موجودگی باعث زندگی بچ گئی۔ یہ ایک دفعہ نہیں کافی دفعہ میرے ساتھ ہوا ہے اور زیادہ تر میں میری غلطی بھی نہیں تھی لیکن اللہ کے کرم اور ہیلمٹ نے ہمیشہ کسی بڑے حادثے سے بچایا۔
پاکستان میں اوسطاً دس سے بیس لوگ بائیک کے حادثے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ آج کل ٹریفک پولیس کی سختی کی وجہ سے اکثر لوگ ہیلمٹ کو اپنے پاس رکھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کچھ اسے اپنے بازؤں میں لٹکائے، کچھ ٹینکی پر رکھے اور کچھ نے اپنی زوجہ کو پکڑایا ہوتا ہے جو ایک ہاتھ میں بچہ اور دوسرے میں ہیلمٹ پکڑے بائیک پر اپنا توازن برقرار رکھنے کی کوشش کررہی ہوتی ہے اور موصوف خودکشی کی نیت سے انتہائی تیزی کے ساتھ گاڑیوں کے درمیان سے بائیک کو گزار رہے ہوتے ہیں۔
یقین کیجیے ٹریفک پولیس اور کوئی بھی حکومت یہ اقدامات صرف بائیک کے حادثات میں بڑھتی ہوئی اموات کو دیکھ کر کرتے ہیں لیکن آفرین ہے ہماری عوام پر جو سوشل میڈیا کے دور میں ایسے ایسے شاہکار لے کر آتے ہیں کہ بندہ دنگ رہ جاتا ہے کہ "کہاں سے آتے ہیں یہ لوگ"
مثلاً پڑھئیے اور سر دھنئیے۔۔
۔ میں اپنے ایک قریبی عزیز کو ملنے گیا تو اس نے ایسا انکشاف کیا کہ میری آنکھوں کے ڈیلے باہر آتے آتے رہ گئے۔۔
"مبشر بھائی ہو نا ہو عوام کو ہیلمٹ کے چکرمیں ڈال کر کوئی بڑا ناجائز کام ہورہا ہوگا۔۔ یہ سیدھا سیدھا میڈیا کو اورعوام کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے؟"
۔ میں اپنے ایک دوست کو ملنے گیا جو چوبیس گھنٹے سیاست پر بے تکان گفتگو کرسکتا ہے اور اس نے میرے علم میں یہ اضافہ فرمایا کہ "یار مبشر فلاں منسٹر کے پھوپھا کے بیٹے کے سسر کی بہو کے مامے نے دس لاکھ ہیلمٹ باہر سے منگوائے ہی اس ہی لیے غریب عوام کو ہیلمٹ پہننے پر مجبور کیا جارہا ہے"۔
۔ ایک اور شخص نے بڑے درد بھرے لہجے میں فریاد کی کہ "مبشر صاحب! غریب بندہ ہیلمٹ کہاں سے خریدے؟"
اب بندہ پوچھے کہ غریب بندے کم از کم پچاس ساٹھ ہزار کی بائیک، اس کا پیٹرول اور مرمت کیسے کرواتے ہیں؟
ایسے موقعے کے لئے پنجابی میں کہا جاتا ہے۔۔
ﻣﻦ ﺣﺮﺍﻡ ﺯﺍﺩﮦ ﺗﮯ ﺣﺠﺘﺎﮞ ﮈﮬﯿﺮ
(جب دل ہی بے ایمان ہو تو بہانے ہزار)
دو ڈھائی ہزار کا ہیلمٹ نہیں لینا لیکن لاکھوں کروڑوں کی جان گنوادینی ہے واہ رے میرے بھولے بادشاہوں۔۔
سر کی چوٹ میں عام ڈاکٹرز کو پتا ہی نہیں ہوتا ہے کہ کونسا انجکشن لگانا ہے نتیجہ بے ہوش شخص کی فوری موت کی صورت میں نکلتا ہے۔
یاد رہے جسم کے زخم اور ٹوٹی ہڈیاں جڑ جاتی ہیں لیکن سر کی چوٹ کے باعث انسان کے زندہ بچنے کے امکانات بہت ہی کم ہوتے ہیں۔
اس لیے خدارا چند ہزار کا ہیلمٹ خرید کر سر پر پہنیں دوسروں کے لئیے نہیں صرف اور صرف اپنے اور اپنے عزیزوں کے لئے۔۔