Jadeed Dunya Aur Purane Hum
جدید دنیا اور پرانے ہم
جدید دنیا میں عام طور پر نئی ٹیکنالوجی، ترقی اور تبدیلیاں شامل ہوتی ہیں جبکہ پرانے ہم ممکن ہے ہمارے پیشے، روابط، تجربات یا عقائد ہوں۔ یہ عنوان اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ہماری زندگیوں میں تبدیلیوں کے ساتھ ہمیں اپنے ماضی کے تجربات کو بھی یادرکھنا چاہیے۔ اس سے ہمیں اپنے فیصلوں اور روابط کو بہتر کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔
جدید دنیا اور پرانے ہم کا تعلق ہمیشہ سے ایک دلچسپ موضوع رہا ہے۔ جدید دنیا نے ہماری زندگیوں کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا ہے۔ ٹیکنالوجی کی تیزی سے ترقی اور روزمرہ کی زندگی میں نئی تبدیلیوں نے ہمیں نئی روشنی دکھائی ہے۔ جدید دنیا میں ہمیں مزید مواقع ملتے ہیں اور ہمیں مختلف ممکنات کا علم ہوتا ہے۔ پرانے ہم کی یادیں ہمیں ہمیشہ مسکراہٹ دیتی ہیں۔ پرانے دوستوں اور رشتے ہماری زندگی میں خوبصورتی لاتے ہیں۔ ان کی یادیں ہمیں محبت، وفاداری، اور ایک دوسرے کی قدر کرنے کی تعلیم دیتی ہیں۔
جدید دنیا اور پرانے ہم کا تعلق ہمیں ہمیشہ یاد رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ہمیں ہماری ماضی سے سیکھنے اور ترقی کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ جدید دنیا اور پرانے دور کے موازنے میں کئی دلچسپ مواضع ہیں۔ جدید دنیا میں ٹیکنالوجی کی بہت بڑی پیشگوئیاں ہیں جو ہماری زندگیوں کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔ وہاں پرانے دور میں انسانیت کی اہمیت اور رشتے زیادہ قدرتی طریقے سے تھے۔ جدید دنیا میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا رواج ہے جو دنیا کو ایک گاؤں بنا دیتا ہے، جبکہ پرانے دور میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ زندگی کے مختلف پہلوؤں کو شیئر کرتے تھے۔ ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارتے۔ ایک دوسرے کے دکھ سکھ بانٹتے تھے۔ ایک دوسرے کے مشکل وقت میں غیر بھی اپنے بن جاتے تھے۔ لیکن جدید دنیا میں تو اپنے خونی رشتے غیروں کی طرح برتاو کرتے ہیں۔ جدید دنیا کی ایک اور بیماری پریوسی ہے۔ یہ بیماری جس کو لگ جاتی ہے۔ سمجھ لو وہ تو بلکل کام سے گیا۔
آج روایت پرست اور قدامت پسند لوگ بھی، جو زندگی کی پرانی قدروں کو سینے سے لگائے رکھنا چاہتے ہیں، اپنے دلوں میں یہ سمجھ چکے ہیں کہ اب تمدن کی پرانی روایات اور طور طریقے بے جان ہو گئے ہیں اور ان سے بالکل کام نہیں چل سکتا۔ اس لئے کرہ ارض کے وہ حصے جو زندگی کی ترقی پذیر رفتار کو رو کے رہنا چاہتے ہیں، انتہائی خوف و ہراس میں جان پر کھیل کر نئی قوتوں کا مقابلہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ زندگی میں تبدیلیاں اور نئے سوچ کا اہم کردار ہوتا ہے، لیکن قدامت پسندی اور روایت پرستی بھی اپنی جگہ رکھتی ہیں۔ ہر شخص کی اپنی رائے ہوتی ہے۔ کبھی کبھار ہمیں اپنی قدرتی تاریخ اور معاشرتی معائنہ کو بھی دل میں رکھنا چاہیے تاکہ ہم اپنے فیصلوں کو خود اعتمادی کے ساتھ لینے کی کوشش کریں۔
زندگی میں تبدیلی اور نئے مواقف آنا ایک معمولی حقیقت ہے جو ہمیں پرانے خیالات اور عملوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ نئی دنیا میں پرانے ہم کا مطلب ہے کہ ہمیں اپنے ماضی کو نہ بھول کر اس سے سیکھنا چاہیے اور نئے تجربات کو خوش آمدید کہنا چاہیے۔ زندگی کی راہوں پر چلتے ہوئے، ہمیں نئی دنیا کے مواقف اور پرانے خیالات کا موازنہ کرنا پڑتا ہے۔ یہ ہمیں ایک بہتر انسان بننے کی راہ دکھاتا ہے جو زندگی کے مختلف مراحل میں ہمیشہ ترقی کرتا رہتا ہے۔ نئی دنیا میں پرانے ہم بننے کی عملی رہنمائی ہمیں اپنی شناخت میں اضافہ کرتی ہے اور ہمیں مزید سمجھدار اور توانا بناتی ہے۔ اس طرح، ہم زندگی کے مختلف چیلنجز اور مواقف کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ اب واقعی وہ وقت آ گیا ہے کہ بقول اقبال۔
پھونک ڈالے یہ زمین و آسمان مستعار
اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے
لیکن یہ بات یاد رہے کہ جس زمین و آسمان کو ہم نے پھونک ڈالا یا پھونکنے والے ہیں ان کی خاکستر کے بغیر بھی ہمارا کام نہیں چل سکتا۔ جب زندگی کا ایک دستور اپنے مقصد اور اپنی توانائیوں کو مکمل طور پر بروئےکار لا چکتا ہے تو وہ ناکارہ اور ناکافی ہو جاتا ہے اور خود اس کے اندر سے ایک نئے نظام کا مطالبہ شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن پرانے نظام اور نئے نظام کے درمیان جو عبوری دور ہوتا ہے وہ بڑے تذبذب، بڑے مغالطوں اور بڑی الجھنوں اور بڑی آزمائش کا دور ہوتا ہے۔
ہمارا موجودہ دور بھی ایک ایسا ہی دور ہے جس میں زندگی کے ہر شعبہ میں ایک افراتفری، ایک ہل چل اور ایک عدم اعتماد محسوس ہو رہا ہے اور ادب کا شعبہ تو سب سے زیادہ تذبذ ب اور الجھانے والا معلوم ہوتا ہے۔ اس وقت ادب کی دنیا میں جتنی سمتیں، جتنے موڑ اور جتنے باہم متناقص میلانات ہم کو نظر آ رہے ہیں ان کی مثال ادبی تواریخ کا کوئی دوسرا دور پیش نہیں کر سکتا۔
جدید دنیا اور پرانے ہم کے درمیان تعلقات کتنےگہرے ہیں۔ نئے حقائق اور تبدیلیوں کے ساتھ، ہمیں پرانے ہم کی قیمت اور اہمیت کو بھی یاد رکھنا چاہیے۔ ہم جتنے بھی ترقی یافتہ اور پڑھے لکھے کیوں نا ہو جائیں ہمیں اپنے ماضی کے ساتھ جدید دنیا کو جوڑنے کی ضرورت ہے۔ تا کہ ہمارے اس دنیا سے جانے کے بعد ہمارے بچے اُن اقتدار کو ہماری آنے والی نسلوں تک امانت سمجھ کر پہنچائیں۔