Aik Bae Bas Shehzadi
ایک بے بس شہزادی
ہمارے معاشرے میں جب بیٹیاں جُوان ہو جاتی ہیں تو ماں باپ کے دن رات کا ایک ایک پل بس یہ ہی سوچنے میں گزرتا ہے کہ کہیں سے کوئی اچھا رشتہ آجائے۔ وہ چھٹ پٹ ہاں کر دیں اور جلد ہی بیٹی اپنے گھر کی ہو جائے اور والدین اس فرض کو پورا کرکے سکون کا سانس لیں کیوں کہ زندگی کا کیا بھروسہ کب وقت پورا ہو جائے اور اس دنیاء فانی سے جانا پڑ جائے۔ اس سارے معاملے میں اگر بہن، بھائی یا دور پار کے کسی رشتہ دار کے لڑکے کا رشتہ آجائے تو سونے پر سہاگا پھر ہماری سادگی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ ہم نہ یہ دیکھتے ہے کہ لڑکے کا چال چلن کیا ہے وہ کتنا پڑھا لکھا ہے، اور نا ہی اس کے کام کاج کو اہمیت دی جاتی ہےبلکہ یہ کہہ کر دل کو تسلی دی جاتی ہے کہ ذمہ داریوں کا بوجھ بڑے بڑوں کو سدھار دیتا ہے۔
یہ ایک چیز ہمارے لئے سکون کا باعث ہے کہ لڑکا ہمارے اپنے خاندان کا ہے، ہماری بچی کو خوش رکھے گا اور اگر لڑکا یوکے یا یو ایس نیشنل ہو پھر تو اِس کو ہم بیٹی کی خوش قسمتی سمجھتے ہیں کہ ہماری اپنی ہے ہماری بیٹی کا خیال رکھے گئی اور اپنی نازوں سے پلی بچی جس کو ہم نے بہت پیار سے پالا ہوتا شہزادیوں کی طرح۔ شادی کرکے ایک آندھے کنویں یا آپ ایسا کہہ لیں ایک کھائی میں پھینک دیتے ہیں۔ پھر وہی بہن گرگِٹ کی طرح آنکھیں بدلنے میں وقت نہیں لگاتی۔ کیوں کہ وہ جانتی ہے جس بہن کی بیٹی اس نے کی ہے وہ اتنی امیر ہی نہیں جواس کے کئے کسی بھی ظلم پر آواز اٹھا سکے۔
یہاں بچی کے ماں باپ سکون کا سانس لیتے ہیں کہ فرض پورا ہوا اُن کی بچی خوش رہے گئی۔ والدین تو دنیا کی ہر نعمت اپنی بیٹیوں کو دینا چاہتے ہیں وہ کہاں جانتے ہیں جس بہن پر اُن کو مان تھا جس پر انہوں نے بھروسہ کیا وہی ان کا مان اپنے قدموں تلے رکھ کر مسلنے میں کسی قسم کی دیر نہیں کرے گی۔ شادی کے بعد جب ایک چھوٹی عمر کی بچی جیسے ایک سوچی سمجھی سازش کے ذریعے شادی کرکے لایا گیا۔ اس کو طعنے دینا، تنگ کرنا، ذہنی ٹارچر کرنا، اس کے ماں باپ کو گلیاں دینا۔ پورا گھر اس بچاری کو ایسے ٹرینگ دیتا ہے جیسے خود اپنی بیٹیاں سلیکا شعار، بہت سگھرہوں۔ اس پر خالہ ماموں اگر ملنے آجائیں اور ماحول گرم دیکھیں تو دو چار بہن کے کانوں میں چھوٹی سچی اور ڈال کے جائیں گے تاکہ آگ شدت اختیار کرےاور کوئی بڑا سین کرییٹ ہو۔
یہ ہمارے معاشرے کا المہ ہے کہ ہمارے سامنے دوسروں کی بہن بیٹی کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اور اگر بات ہماری خود کی بیٹی کی ہو تو وہ کوئی عام لڑکی نہیں ہے۔ وہ حور پری ہے۔ اس کے ساتھ کبھی کچھ غلط نہیں ہو سکتا۔ ہم بھول جاتے ہیں جس قلم سے نصیب لکھے جاتے ہیں وہ قلم کوئی خرید نہیں سکتا، وہ کسی بازار میں نہیں بکتا۔ اس کا اختیار رب نے اپنے ہاتھ ہیں رکھا ہے۔ پہلے ہم اور پھر ہماری اولاد انہی رشتوں کے ہاتھوں مجبور ہو جاتے ہیں۔ منافقت سے بھرے رشتے ہونے سے میں سمجھتی ہوں انسان ان کے بغیر بہتر ہے۔ لیکن اس دنیا کے لوگوں کی منطق نرالی ہے۔ وہ کہتے ہیں بہن بھائی اچھے ہوں یا بُرے ان کو کچھ نہیں کہنا چاہیے ان کی لاکھ زیادتیوں کو بھی سہہ لو کیوں کہ ہم دنیا میں اکیلے نہیں رہ سکتے۔ لیکن اب اس بچی کا کیا جس کو سترہ سال کی عمر میں پڑھائی چھوڑواکر ایک ایسے لڑکے کے سپرد کر دیا گیا جو نشہ کرتا ہے پڑھا لکھا بھی نہیں بلکہ اپنے ہی باپ کا نوکریے۔
ایک ذہنی مریض سے بتر ہے جیسے اپنےماں باپ کی مان کر چلنا پڑتا ہے، کیا کرے وہ لڑکی جس کے اپنے ہاتھ میں صرف میٹرک کی ڈگری ہے کہ اگر اس پر کوئی برا وقت اگیا تو وہ اپنا دفاع کر سکے اس زمانے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آگے بڑھ سکےگی۔ اب وہی بہن جو شادی سے پہلے تو واری صدقے ہوتی تھی اور شادی کے فورا بعد اس کا رویہ اور لہجہ ایسا بدلا کہ جیسے خون ہی سفید ہوگیا ہو اور خاندان والے جن سے خونی رشتے ہوں چونکہ وہ بچی کسی اور کی بیٹی ہے تو جلتی پر تیل ڈالنا تو بنتا ہے اور اگر یہاں بہن امیر ہو تو پورا خاندان اس کو سلوٹ مارتا ہےاور اس کو کوئی برا نہیں کہتا اس کے ہر عمل پر آنکھیں اور کان بند کرکے لڑکی کے ماں باپ کو جھکنے، خاموش رہنے کا لیکچر دیا جاتا ہے۔
بے قصور ہونے کے باوجود اس لڑکی کو بار بار معافیاں منگوائیں جاتی ہیں۔ اس ساری کہانی میں اس لڑکی اور اس کے ماں باپ کا کیا قصور ہے؟ کہ وہ بیٹی کے ماں باپ ہیں۔ یا ان کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے بہن یا بھائی کی محبت میں آنکھیں بند کرکے اپنی نازوں سے پلی بیٹی ان نے نالائق عیاش ان پڑھ نشئی بیٹے کو دے دی۔ وہ بچی کس کے پاس جائے یہ فریاد لے کر۔ اسکے ماں باپ تو آدھے اس غم سے نڈھال ہیں کے اپنوں نے دھوکا دیا اور باقی کثر خاندان والے نکال دیتے ہیں انجان بن کر ان کے زخموں پر روز نئے انداز میں نمک ڈال کر۔ ان بے حس لوگوں کی باتیں جگر کو چھلنی کر دیتی ہیں۔ قصور کس کا ہے؟
ہمارے معاشرے میں شادی کے بعد اولاد کا جلد ہونا بہت ضروری سمجھا جاتا ہے۔ ہمارا یہ سوچنا ہے کہ اولاد برے سے برے انسان کو بھی ٹھیک کر دیتی ہے اور شاید یہ کسی حد تک درست بھی ہو۔ لیکن اس انسان کو کیسے ٹھیک کر سکتی ہے جو ذمہ داریوں سے بھاگتا ہو، ماں باپ کے ہر غلط فیصلے پر سر جھکا دے۔ تاکہ اس کی عیاشیوں پر کوئی فرق نہ آہے اور اگر کبھی آواز اٹھانے کی کوشش کرے بھی تو یہ جملہ کہ" ہم تمھیں جائیداد سے بےدخل کر دیں گے "اس کو وہ کرنے پر مجبور کر دیتا ہے جو اس کے ماں باپ کہہ رہے ہوتے ہیں۔
ساری زندگی ایک بدتمیز نافرمان لڑکا ماں باپ کا فرمانبدار بیٹا بن جاتا ہے اور اس سترہ سالہ بچی کا کیا قصور جو خالی ہاتھ، تعلیم کے بغیر، شادی کہ ایک سال بعد گود میں بچہ لیے اس دنیا کو کیسے چھیلے گی۔ اولاد تو اس عیاش لڑکے کو ٹھیک نہ کر سکی یہاں پر یہ منطق تو کام نہ آہی البتہ اس لڑکی کے پاوں کی زنجیر ضرور بن گئ۔ ہم اس سب کو قسمت کا لکھا کہہ کر ایک بھاری سا پتھر اپنے دل پر رکھ لیتے ہیں۔
ہم نے کبھی یہ سوچا ہے کیسے ہمارا رب جو ہمارا نصیب لکھتا ہےجو ہم سے ستر ماوں سے ذیادہ محبت کرتا ہے وہ رب اتنی تکلیف ہمارے نصیب میں لکھے۔ وہ ایسا لکھ ہی نہیں سکتا۔ یہ سب ہمارے جلد فیصلوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ کبھی کسی پر بیٹیوں کے معاملے میں اعتبار مت کریں وہ بے شک سگھا بھائی یا بہن کیوں نا ہو۔ بیٹیوں کے فیصلے صرف دل سے نہیں، دل اور دماغ دونوں سے کرنے چاہیے۔ کیوں کہ بعد میں اس فیصلے کو جھیلنا آپ کو اور آپ کی بے بس شہزادی کو پڑتا ہے جو اپنی زبان پر اپنے دکھ کو لانے سے اسلئیے ڈرتی ہے کہ کہیں اس کو دکھی اور کمزور دیکھ کر اس کے ماں باپ کا کلیجہ ہی نہ پھٹ جائے۔ وہ زمانے کی سختیاں، اپنوں کے کیے ستم دیکھ کر بھی اگنور کرنے کا ہنر سیکھ جاتی ہے۔
بیٹیاں تو بہت پیاری ہوتی ہیں۔ جس کے گھر میں ہوں جنت سے کم نہیں وہ گھر۔ لیکن ان کے نصیب کا فیصلہ بہت غور و فکر سے کریں۔ کیوں کہ ان کی تکلیف برداشت نہیں ہوتی۔ یہ روتی ہیں تو دل پھٹ سا جاتا ہے روح چھلنی ہو جاتی ہے۔ بے شک اولاد کا دکھ ایسا زخم ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ گہرا ہوتا ہے۔ جب تک ماں کا سایہ سر پر ہوتا ہے اس بے بس شہزادی کو اپنے دکھ دکھ نہیں لگتے۔ کیوں کہ ماں جو اس کے ہر دکھ کو اس کے چہرے کی کتاب سے پڑھ کر اس کو سکھ میں بدل دیتی تھی۔ لیکن جب ماں ساتھ چھوڑ جائے تووہ اس دنیا میں بلکل اکیلی ہو جاتی ہے جس کا کوئی اپنا نہیں رہتا۔
اپنوں کے بدلتے ہوئے ہزاروں چہرے اس کی تکلیف میں اضافے کرتے ہیں اور اس پر صبر کے گھونٹ بھرنا ناممکن ہوتا ہے۔ ہمیں اپنی بیٹیوں کی تعلیم پر توجہ دینی چاہیے۔ ہمارے ہاں بچی پیدا ہوتی ہے ہمارے گھروں میں اس کا جہیز بننا شروع ہو جاتا ہے۔ جب کہ اصل جہیز تو ان کی اعلی ٰتعلیم اور وہ اعلیٰ تربیت ہے جو ہم اپنی بیٹوں کی کرتے ہیں۔ بیٹیوں کو بھی خود اعتمادی سے اڑان بھرنے کے لیے پر دینے چاہے۔ کیوں کہ آپ کی کمزور بے بس شہزادی کا آسمان آپ ہیں۔ ان کے پر نا خود کاٹیں اور نا یہ حق کسی کو چھینیں دیں۔