Games Aur Nojawan Nasal
گیمز اور نوجوان نسل
آج کل آپ والدین شاید اس بات سے لا علم ہیں کہ آپ کے بچے گیمز کھیلتے ہوئے کئی خطرناک کھیلوں کا حصہ بن گئے ہیں۔ کچھ نوجوان ڈپریشن کا شکار ہو رہے ہیں کوئی تعلیم سے دوری اختیار کر رہے ہیں تو کچھ بچے ان گیمز کی وجہ سے باقاعدہ اپنا جسم فروخت کر رہے ہیں۔
ایک بچہ جسے اپنے گھر سے ہر ہفتے پانچ سو روپے جیب خرچ ملتا ہے وہ ہر ہفتے کسی گیم کے لیے 2500 روپے کے ڈائمنڈ کوائن خریدتا ہے۔ اب آپ سوچیے کہ وہ اس رقم کیلئے چوری کرتا ہے؟ ہر ہفتے ایسا کرنا یقیناً ممکن نہیں ہے آج کل نوجوانوں کو سب سے آسان طریقہ یہ لگتا ہے کہ اپنی عمر سے بڑے لڑکوں یا مردوں کی تسکین کا سامان بن جائیں۔
یقین کیجیے آج کل "ہم جنس پرستی" یا کہہ لیجیے کہ "اینل سیکس" کی شرح میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے اپنی مرضی سے اس عمل پر راضی ہیں وہ کسی کا یہ شوق پورا کرتے ہیں اور اس طرح حاصل ہونے والی رقم سے اپنے شوق پورے کرتے ہیں۔ وہ پھر مہنگے لباس ہوں یا مہنگے کھانے یا کسی گیمز کے لیے ڈائمنڈ۔۔ کچھ ایسا ہی وہ لڑکیاں کرتی ہیں جن کے پاس وسائل نہیں ہیں اور مہنگے تحائف حاصل کرنے کے لیے وہ اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیتی ہیں۔۔ مختلف پارکس میں کم عمر لڑکوں کو ساتھ لے جانے کی ڈیلز طے ہو رہی ہیں۔ اپنے بچوں کی حفاظت کیجیے۔
میں آپ والدین کو اس معاملے سے آگاہ کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ ان گیمز میں دلچسپی رکھنے والے کئی لڑکے لڑکیاں بہت سی غلط ایکٹیویز کا حصہ بن کر تباہ ہوئے ہیں۔ بحیثیتِ والدین اب یہ آپ کا کام ہے کہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں۔ ان کی روٹین پر توجہ دیں ان کے دوستوں کی خبر رکھیں وہ کہاں جاتے ہیں کس سے ملتے ہیں؟ رات بھر موبائل پر کیا کچھ کرتے ہیں؟ یہ جاننا آپ کے لیے ضروری ہے۔ بچوں کو الگ کمرے دے کر جو سہولیات فراہم کی گئی ہیں ان کے منفی اثرات سے واقفیت رکھنا بھی آپ پر لازم ہے۔
ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے ایک دوسرے سے با خبر رہنا ضروری ہے۔ بچوں کے ساتھ وقت گزاریں دستر خوان کا اہتمام کریں۔ بچوں کو کوالٹی ٹائم دیں۔ ان کی تعلیم اور تربیت پر توجہ دیں۔ سکول، کالج اور یونیورسٹی کے معاملات پر گفتگو کرتے رہیں۔ جو کچھ ہو رہا ہے اس پر بچوں کی ذہن سازی کرتے رہیں۔ مناسب وقت پر ان کی عمر کے مطابق انہیں"سیکس ایجوکیشن" دیتے رہیں۔ ناجائز تعلقات جیسے خرافات پر ان کی ذہن سازی کریں۔ اپنی عمر سے بڑے دوست بنانے پر ان کی رہنمائی کریں اس عمل سے دور رہنے کی تلقین کیجیے۔ توجہ دیں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔