Yahan Kuch Hone Ko Hai
یہاں کچھ ہونے کو ہے
بگ بینگ کے بعد مجھے جس چیز نے سب سے زیادہ حیران و پریشان کیا ہے۔ وہ ڈارک انرجی اور ڈارک میٹر ہے۔ یہ چیزیں ہمارے آس پاس موجود ہیں، لیکن ہم انہیں دیکھ سکتے ہیں اور نہ ہی چھو سکتے ہیں۔۔ اب جو چیز ہم دیکھ نہیں سکتے اس کے بارے میں ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ چیز کائنات میں موجود ہے؟ کیا سائنس دان جھوٹ بول رہے ہیں، یا ہم لوگوں کو یوں بےوقوف بنارہے ہیں؟ کیونکہ جو چیز ہم دیکھ نہیں سکتے۔۔ اسکے بارے میں ہم کیسے دعوی کرسکتے ہیں جو چیز ہم دیکھتے ہیں یہ مادہ ہے۔۔
کائنات میں موجود یہ ستارے سیارے، بلیک ہولز، کہکشائیں غرض ہر چیز مادے سے بنی ہے لیکن یہ مادہ کتنا ہے؟ ناسا سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ یہ مادہ کائنات میں موجود کل مادے کا صرف چار فیصد بنتا ہے، میں ایک بار پھر دہراتا ہوں کہ جو چیزیں ٹیلی سکوپ یا ننگی "آنکهوں" سے ہم "دیکھتے" ہیں، وہ کل کائنات کا صرف چار 4 فیصد حصہ ہے، کائنات کا 96 فیصد حصہ ابھی ہماری نظروں سے اوجھل ہے۔۔ کائنات کا یہ حصہ ہم کسی ٹیلیسکوپ سے دیکھ نہیں سکتے، یہاں ہم عاجز اور بےبس ہوجاتے ہیں، کیونک یہاں ہماری ٹیکنالوجی اور تمام تر ٹیلیسکوپس کام کرنا چھوڑ جاتے ہیں۔
سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ کائنات میں 25 فیصد ڈارک میٹر اور 71 فیصد ڈارک انرجی ہے۔ یہ وہ "مادہ" ہے جو نا روشنی جزب کرتا ہے۔ اور نا ہی خارج کرتا ہے۔ اس وجہ سے ہم اس کو دیکھ نہیں سکتے۔۔ ہم صرف وہی "چیزیں" دیکھ سکتے ہیں۔ جب روشنی کی "فوٹانز" کسی چیز سے منعکس ہو کر ہماری آنکھ تک پہنچ سکیں۔۔ یہ روشنی سب سے پہلے آنکھ کے قورنیہ سے ٹکراتی ہے۔۔ اور اس سے گزر کر ہماری ریٹنا تک پہنچتی ہے جہاں اس چیز کا عکس بنتا ہے۔۔ لیکن ڈارک میٹر اور ڈارک انرجی پر جب "سورج" کی روشنی پڑتی ہے، تو وہ ہمیں واپس نہیں ملتی، جس کی وجہ سے ہم انہیں دیکھ نہیں سکتے، لیکن یہ چیزیں بہرحال موجود ہیں کیونکہ اس انرجی اور مادے کی موجودگی کے شواہد موجود ہیں۔
فرض کریں آپ کئی سالوں سے ایک گاڑی چلا رہے ہیں۔۔ آپکو معلوم ہے کہ گاڑی کی سپیڈ اتنی ہے۔۔ آپ اسی گاڑی سے لاہور سے کراچی پہنچتے پہنچتے دس گھنٹے لگاتے ہیں لیکن آپ کا دوست وہی گاڑی لاہور سے کراچی جاتے ہوئے دس کی بجائے دو گھنٹے لیتا ہے۔۔ اب یہاں آپ خوش ہونے کی بجائے حیران ہوں گے، کیونکہ یہ چیز آپ کے لیے ناممکن ہے۔ لیکن آپکے دوست نے کرکے دیکھایا۔ اب یہاں آپ سوچیں گے کہ یہ کیسے ہوا؟ کیونکہ راستے کی لمبائی بھی وہی ہے اور آپ کے گاڑی کی رفتار بھی وہی ہے۔۔ یہاں اگر آپ عام آدمی ہوں گے تو یہ بات ایک دو دن میں بھول جائیں گے۔ لیکن سائنس دان ایسی چیزوں کے پیچھے پڑجاتے ہیں، اور ان کا سراغ لگاتے ہیں۔
چونکہ ہم جانتے ہیں، کہ بگ بینگ کی وجہ سے کائنات پھیل رہی ہے۔۔ آسان لفظوں میں اگر کہوں تو اس کا مطلب ہے کہ ایک کہکشاں دوسرے "کہکشاں" سے اور ایک کلسٹر دوسرے کلسٹر سے دور بھاگ رہا ہے۔۔ لیکن ہم جب کشش ثقل کی مقدار کا مطالعہ کرتے ہیں تو ایک وقت کے بعد کہکشاٶں کی یہ رفتار کم ہونی چاہیے۔۔ یعنی اس کائنات کے پھیلاؤ کی رفتار کو سست ہونا چاہیئے، کیوں کہ کہکشاٶں میں مادہ موجود ہوتا ہے، اور نیوٹن لاءٕ کےمطابق مادے کے درمیان کشش ثقل موجود ہوتا ہے، جو ایک دوسرے کو اپنی طرف کشش کرتے ہیں، آپ نے دیکھا ہوگا، کہ ہم جب کوئی چیز اوپر کی طرف پھینکتے ہیں۔ تو وہ واپس زمین پر آگرتی ہے کیوں کہ "زمین" اس چیز پر نیچے کی طرف قوت لگاتی ہے۔ جسکو عرف عام میں گریوٹی کہتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہر چیز اوپر کی طرف جاتے، وقت اس کی "حرکت" سست پڑتے پڑتے ایک مقام پر ختم ہوجاتی ہے۔۔ تب وہ واپس گرتی ہے۔ لیکن کائنات میں ایسا مظہر "دیکھنے" کو نہیں ملتا۔۔ کائنات میں ہر ایک کہکشاں آگے کی طرف بڑھ رہی ہے۔۔ حالانکہ کشش ثقل کی وجہ سے دو 2 کہکشاٶں کے درمیان کھینچنے کی قوت بھی موجود ہے۔
سال 1998ٕٕٕ میں امریکن سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے تجربہ کیا جس نے سب کو حیران و پریشان کردیا۔۔ یہ تجربہ زمین سے بہت ہی دور ایک سپرنووا پر کیا گیا۔ اب یہ سپر نووا کیا ہے؟ ہمارے "سورج" سے تقریبا دس گنا زائد کمیت والا ستارہ جب پھٹ جاتا ہے، تو اس کو فلکیات کی زبان میں سپرنووا کہہ کر پکارتے ہیں۔۔ ہم جانتے ہیں تمام ستاروں کی ایک عمر ہوتی ہے۔ وہ پیدا ہوتے ہیں، اور پھر ایک وقت کے بعد مرجاتے ہیں۔ عموما چھوٹے ستاروں کی عمر زیادہ لمبی ہوتی ہے جب کہ بڑے ستاروں کی عمر کم ہوتی ہے، اور وہ جلدی مر جاتے ہیں۔
وہ ستارے جو ہمارے سورج سے بہت زیادہ بڑے ہوتے ہیں ان کا اختتام زیادہ بھیانک ہوتا ہے۔۔ ایسے ستارے جب مرجاتے ہیں تو موت کے دوران وہ ہمارے تقریبا "سورج" سے سو ارب گنا زیادہ روشنی خارج کرتے ہیں۔ ایسے ستاروں کی موت کو سپر نووا (supernova) کہتے ہیں۔ اس تجربے میں سپرنووا کی ولاسٹی کا مطالعہ کیا گیا۔۔ اس نتیجے نے ماہرینِ فلکیات کو شش و پنج میں ڈال دیا۔۔ کیونکہ اب تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ گریوٹی صرف قوت کشش ہے۔ اور چونکہ ستارے دور سے دور ہوتے جارہے ہیں اس لیے ان کے درمیان یہ کشش کم سے کم ہوتی چلی جارہی ہے، اور اسلیے کائنات کے پھیلاؤ کی رفتار بھی سست سے "سست" تر ہوتی چلی جارہی ہے۔
یہ معلوم کرنے کےلیے 1998 میں سپرنووا پر تجربات کیے گئے، اور ناسا سائنس دانوں کو یقین تھا کہ انہوں نے سپرنووا کے فاصلے کا جو اندازہ "گریوٹی" کے اعداد و شمار سے لگایا تھا۔ وہ بالکل درست ہوگا۔ لیکن وہ غلط ثابت ہوا۔ تو سائنسدانوں کو حیرت ہوئی۔ گویا کائنات کے ستارے کشش ثقل کے ذریعے لگائے گئے اندازوں پر پورا نہیں اترتے تھے۔ لیکن انہی تجربات میں جو زیادہ حیران و پریشان کردینے والے نتائج سامنے آئے وہ یہ تھے، کہ کائنات کے پھیلاؤ کی رفتار کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہے۔ اس نتیجے نے سائنسدانوں کو چکرا دیا۔ کیونکہ ہم گریوٹی کے بارے میں جس قدر جانتے ہیں، اس حساب سے کائنات کے "پھیلاؤ" کی رفتار کو "وقت" کے ساتھ ساتھ سست ہوتے چلے جانا چاہیے تھا۔۔ لیکن 1998ء کے تجربات سے جو ڈیٹا حاصل ہوا وہ پرانے خیال کی نفی کررہا تھا۔
چنانچہ سائنس دان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کائنات میں ایک خاص قسم کی توانائی موجود ہے۔۔ جو بہت ہی طاقتور ہے اور یہ وہی توانائی ہے، جو تمام کہکشاں کو باہر کی طرف پھینک رہی ہے۔ اور یہ نہ صرف باہر کی طرف دھکیل رہی ہے بل کہ ان کی رفتار میں مسلسل "اضافہ" بھی کررہی ہے۔ اس وجہ سے سائنسدانوں نے اس انرجی کو "ڈارک انرجی" کا نام دیا۔
اس کے علاوہ ڈارک میٹر کہکشاؤں میں موجود ایسا مادہ ہے جو روشنی کو منعکس نہیں کرتا، تبھی تو "کہکشائیں" اپنی موجودہ شکل برقرار رکھی ہوئی ہیں ناسا ماہرین فلکیات نے ایسے مادہ کی موجودگی کا بھی پتہ لگایا ہے۔۔ جس کو ہم سائنس کی زبان میں"ڈارک میٹر" کہتے ہیں، کسی بھی چیز کو دیکھنے کے لیے ضروری ہے، کہ وہ چیز "روشنی" کا اخراج کرے یا پھر روشنی کو جذب کرے۔ اور اگر کوئی چیز روشنی کا اخراج کرتا ہو، تو وہ چیز ہمیں"رنگین" نظر آئیگی اور اگر روشنی کو جذب کرتا ہو تو سیاہ نظر آئیگی لیکن ڈارک میٹر ایسا مادہ ہے جو ان دونوں میں سے کوئی کام نہیں کرتا۔
ناسا سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ڈارک میٹر ایسا کچھ بھی نہیں کرتا۔۔ ہاں البتہ ڈارک میٹر کشش ثقل کی ایک بہت بڑی مقدار فراہم کرتا ہے۔۔ یہ ایک "پوشیدہ" مادہ ہے کشش ثقل فراہم کرنے کی بنیاد پر "ڈارک میٹر" مختلف "کہکشاؤں" کو متوازن رکھے ہوئے ہے۔۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ یہ تمام ستارے اور سیارے ہماری کہکشاں کو "چھوڑتے" کیوں نہیں؟
ہم جانتے ہیں کہ کائنات یونیورس دن بدن پھیلتی جارہی ہے لیکن پھر بھی ہمارے سیارے اپنی "کہکشاں" کو چھوڑ نہیں رہے؟ اور کیوں تمام ستارے کلسٹرز یعنی جھنڈ کی شکل میں پائے جاتے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ "کشش ثقل" ان تمام چیزوں کو باہم منسلک کیے ہوئے ہے۔۔ اور یہ ستارے اور سیارے اپنے جھنڈ سے کبھی الگ نہیں ہو پاتے اور کبھی ایک کہکشاں کا ستارہ کسی دوسرے کہکشاں میں نہیں چلا جاتا۔ ہماری خلا میں گریوٹی کی مقدار بہت زیادہ ہے۔ اور یہ کسی بھی کہکشاں کے بس کی بات نہیں ہے کہ وہ اسکے بغیر خود کو "stable" رکھ سکے، اور اس کی مقدار اتنی زیادہ ہے کہ کوئی بھی کہکشاں اسے خود سے "پیدا" بھی نہیں کر سکتی اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ "گریوٹی" کسی نا معلوم مادہ سے حاصل ہو رہی ہے جو کہ ڈارک میٹر کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں ہو سکتی۔
اس کائنات میں جو بھی چیز ہم دیکھتے ہیں، ایٹم کے ذرات سے لے کر کہکشاؤں، سورج، چاند اور ستاروں تک سب ملاکر محض چار فیصد بنتا ہے جی ہاں آپ نے بالکل ٹھیک ہی پڑھا کیونکہ بقایا "کائنات" یعنی 96 فیصد ڈارک انرجی اور ڈارک میٹر پر مشتمل ہے۔ جسے ہم "دنیا" کی کسی ٹیلی سکوپ سے دیکھ نہیں سکتے۔۔ لیکن یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیئے کہ اگر ہمیں 60 کی بجائے ساٹھ 60 ارب سال عمر بھی ملے تب بھی ہم ان چار 4 فیصد "کائنات" کو صرف دیکھ بھی نہیں پائیں گے "گھومنا" تو دور کی بات ہے کیونکہ کائنات بہت ہی بڑی ہے۔ ہماری موجودہ ٹیکنالوجی اس کے اگے بےبس ہوجاتی ہے۔۔!