Ilm e Falkiyat
علمِ فلکیات
فلکیات ایک ایسا فیلڈ ہے کہ آپ کو اپنی "اوقات" بتاتا ہے کہ آپ کون ہیں؟ آپکو اپنی اصلی اوقات دکھاتا ہے یہی وجہ ہے کہ میں اسے خود بھی پڑھتا ہوں، اور دیگر لوگوں کو بھی پڑھاتا ہوں میں چاہتا ہوں کہ آپ کو اپنی اصلی اوقات کا پتا چلے۔ کیوں کہ انسان معمولی چیزوں پر غرور و تکبر کرتا ہے۔ آپ سب چونکہ میرے "دل" کے بہت ہی قریب ہیں۔ اس وجہ سے میں نہیں چاہتا کہ آپ ان "چیزوں" میں مبتلا ہو جائیں۔ میں نے سوشل میڈیا پر ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں، جو چند لائکس کی وجہ سے عام لوگوں سے بات بھی نہیں کرتے ہیں۔ مجھے ہر دوسری پوسٹ پر، ہزاروں لائکس، اور سو سے اوپر کمنٹس ملتے ہیں۔ یہ لائکس ان لوگوں سے کئی زیادہ ہیں لیکن یقین مانیں کہ میرے اندر تھوڑا بھی غرور و تکبر نہیں کیوں کہ میں روزانہ "اسٹرونومی" کے بارے میں "پڑھتا" ہوں میں اپنی اوقات سے واقف ہوں۔
میں کائنات میں جس کہکشاں میں قید ہوں، اس کی اوقات بھی جانتا ہوں۔ جس کلسٹر میں یہ کہکشاں موجود ہے۔ اس کی اوقات بھی خوب جانتا ہوں بلکہ کلسٹر جس سپر کلسٹر کے اندر موجود ہے۔ اس کی اوقات بھی جانتا ہوں۔ آپ لوگ شاید یقین نہیں کرینگے لیکن کائنات میں ان سب کی اوقات ایک ریت سے بھی کم ہے، اور آپ اپنی اوقات کی بات کررہے ہیں؟
اس وقت ناسا کا سب سے قیمتی ٹیلیسکوپ زمین سے پندرہ لاکھ کلومیٹر دوری پر موجود ہے۔ دنیا کے تمام تر سیٹلائٹس اس ٹیلیسکوپ سے نیچے ہیں۔ یہ دنیا کی واحد ٹیلی سکوپ ہے جس پر 1200 سائنسدانوں اور انجینئروں نے کام کیا ہے۔ آپ لوگ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ پندرہ لاکھ کلومیٹر پر ہی کیوں؟ اس کے پیچھے لاجک یہ ہے کہ کسی بھی سیارے کے اردگرد وہ مقام، جہاں اسکی "گریوٹی" اُسکے اپنے ستارے کو اوورلیپ کرتی ہے۔ ایسے مقام کو "اسٹرونومی" کی زبان میں ہم "ہل سپئیر" کہتے ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ زمین کا ہل سپئیر تقریباً 15 لاکھ کلومیٹر تک ہے۔
اسکا مطلب کیا ہے؟ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے، کہ اگر آپ زمین سے صرف 15 لاکھ کلومیٹر دور چلے جائیں، تو آپ زمین کی گریوٹی سے آزاد ہو کر "سورج" کے گرد چکر لگانا شروع ہوجائیں گے۔ یہی وجہ ہے، کہ ناسا نے جیمز ویب ٹیلیسکوپ کو پندرہ 15 لاکھ کلومیٹر دور بھیجا ہے تاکہ وہاں ہر طرف سے "فوٹانز" حاصل کرے، کیونکہ وہاں جیمز ویب ٹیلی سکوپ 24 گھنٹے ایکٹیو رہتا ہے۔ ہر ایک لمحے سے فائدہ اٹھا رہا ہے رات کے وقت ہم سورہے ہوتے ہیں لیکن جیمز ویب ہمارے لیے نئی نئی دنیائیں ڈھونڈتے رہتے ہیں۔
یہ تصویر ناسا کے نامی گرامی "جیمز ویب" ٹیلی سکوپ کے ذریعے لی گئی ہے۔ یہ ایک سپر کلسٹر کی تصویر ہے اور اس تصویر میں آپ تقریباََ 45,000 سے زیادہ کہکشاؤں کو دیکھ رہے ہیں۔ جی بالکل آپ نے ٹھیک ہی پڑھا۔ اس میں ہر ایک ڈاٹ ایک مکمل "کہکشاں" ہے، اور ہر ایک ڈاٹ میں ملین اور بلین تک ستارے، سیارے اور بلیک ہولز موجود ہیں۔ اس میں ہر ایک ڈاٹ دوسرے ڈاٹ سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن حیران ہونے والی بات یہ نہیں، بلکہ حیران کر دینے والی بات یہ ہے کہ یہ رفتار ہم اپنی موجودہ ٹیکنالوجی کے ذریعے ماپ کرنے سے فی الحال قاصر ہیں۔
یہ تصویر JWST Advanced Deep Extragalactic کے حصے کے طور پر لی گئی تھی۔ اسکا سادہ اور آسان مطلب یہ ہے کہ سپر کلسٹر کے پیچھے مکمل کہانی ابھی تک expose نہیں ہوئی بلکہ اس پر ابھی کام ہو رہا ہے ناسا کا کہنا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ ہم تا حال اسکے بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دے سکتے۔ یہ کوئی عام سپر کلسٹر نہیں ہے بلکہ اس سپر کلسٹر پر ایک وقت میں تین اداروں نے ایک ساتھ ملکر کام کیا ہے یعنی ناسا، ایسا اور کیسا۔۔ یہ سپر کلسٹر ابتدائی "کائنات" میں کہکشاؤں اور ستاروں کی تشکیل کے بارے میں شاید ہمارے لئے مفید ثابت ہو۔
ہم فی الحال یہ "رائے" قائم کرنے سے قاصر ہیں کہ کہکشاؤں کا یہ گروپ ہم سے کتنی دوری پر واقع ہے، کیوں کہ فلکیات دان ریڈ شفٹ کی "پیمائش" کرتے ہیں کہ یہ کتنی دور ہے نیز یہ کہ یہ ابتدائی کائنات Universe میں کب سے موجود ہے، سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ریڈ شفٹ سے اوپر چند کہکشائیں دیکھی گئی تھیں، جو کائنات کی عمر سے تقریباََ 650 ملین سال سے کم تھی۔ ناسا جیمز ویب ٹیلی سکوپ نے JADES پروگرام کے ذریعے انتہائی دور دراز کہکشاؤں میں سے تقریباً 1000 کو بے نقاب کیا ہے یعنی ان 45000 ہزار کہکشاؤں میں سے، ہم صرف ایک ہزار 1000 "کہکشاؤں" کے بارے میں کچھ کچھ ہی جان چکے ہیں، لیکن ان میں ہر ایک ڈاٹ میں موجود "لاکھوں" اور "کروڑوں" ستارے اور سیارے حرکت میں ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ اس وقت آپ ستاروں کے ایک بہت بڑے سمندر کو دیکھ رہے ہیں۔ کوئی تو ہے جو اس کائنات کو بار بار "monitor" کرتا جارہا ہے، کیوں کہ یہ نظام creator کے بغیر ایک سیکنڈ بھی نہیں چل سکتا"۔