Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Tehsin Ullah Khan
  4. Big Bang Se Khuda Tak Ka Safar

Big Bang Se Khuda Tak Ka Safar

بگ بینگ سے خدا تک کا سفر

کیا آپ بھی ایسا سوچتے ہیں کہ یہ "کائنات" کیسے بنی ہے؟ زمین کہاں سے آئی ہے؟ سورج اور چاند کیا ہیں؟ میں روزانہ ایسا سوچتا ہوں، ذرا سوچیں کہ آج سے تقریباً دس ہزار سال پہلے آپ جس جگہ موجود ہیں، وہ کیسے ہوگی؟ دنیا کی آبادی کیا تھی؟ پھر ایک لاکھ سال پیچھے چلے جائیں، اور اس طرح جب آپ تیرہ 13 بلین سال پیچھے چلے جائیں، تو آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ اس وقت جہاں رہتے ہیں انسان وغیرہ تو دور کی بات ہے، اس وقت جس زمین پر آپ رہے ہیں وہ زمین ہی نہیں تھی، بلکہ سورج چاند اور آسمان پر آپ جو ستارے دیکھ رہے ہیں وہ ستارے بھی نہیں تھے۔

آسمان بھی نہیں تھا جب بگ بینگ ہوا تو ایک بلین سال تک کائنات میں شدید اندھیرا تھا۔ بگ بینگ کیسے ہوا یہ ہم نہیں جانتے، بگ بینگ سے پہلے کیا تھا؟ یہ بھی نہیں جانتے اکثر ملحدین اللہ تعالیٰ کا انکار کرتے ہیں، کہ بگ بینگ سے پہلے کچھ بھی نہیں تھا اس وجہ سے اللہ نہیں ہے۔ انکو بتا دیتا ہوں، کہ بگ بینگ سے پہلے ہم کچھ نہیں جانتے، لہذا یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ بگ بینگ سے پہلے کچھ بھی نہیں تھا۔ تو اللہ کیسے موجود ہوسکتا ہے، بالکل بے بنیاد بات ہے۔۔ ہم کچھ جانتے ہی نہیں، اور نہ کبھی جان سکیں گے کیونکہ یہ ایک معمہ ہے۔

13 بلین سال پہلے جب بگ بینگ ہوا تو کائنات میں ہر طرف شدید اندھیرا تھا اور یہ اندھیرا ایک بلین سال تک مسلسل کائنات میں ہر طرف چھایا رہا۔ روشنی کا نام و نشان نہیں تھا کیونکہ الیکٹرانز بنے ہی نہیں تھے، اس وقت کوارک اور گلواون نے ملکر پلازمہ بنایا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کوارک اور گلواون کیسے وجود میں آئے، تو اس کا جواب ہے کہ اس کے بارے میں ہم نہیں جانتے، سائنس اس بارے میں مکمل خاموش ہے، بعض کوارکس اور گلواونز کے ملنے سے پروٹونز اور نیوٹرونز بنے اور پھر تقریباً ایک بلین سال گزرنے کے بعد پروٹونز اور "نیوٹرونز" کے ملنے سے "ایٹمز" کے نیوکلیائی بنے۔

ایٹم میں چونکہ الیکٹرانز اور فوٹانز ہوتے ہیں، اس وجہ سے پوری ایک بلین سال بعد "کائنات" روشنی سے منور ہوئی، اور اندھیرا کم ہونا شروع ہوا۔ اسکے بعد الیکٹرونز نیوکلیائی سے ملے، اور ہائیڈروجن، ہیلیم اور لیتھیم کے ایٹمز بنے۔ رہنمائی کے لیے بتاتا چلوں، کہ یہ اچانک نہیں ہوا بلکہ اس میں کروڑوں سال لگے اس کے بعد گریویٹی آئی، اور پھر گریویٹی نے ستاروں کو جنم دیا، اور ستاروں میں نیوکلئیر فیوژن شروع ہوا۔ اسی گریویٹی نے سیاروں کو بننے میں بھی مدد دی، اور ہمارے زمین کی طرح سیارے وجود میں آئے لیکن ہماری زمین "بگ بینگ" کے آٹھ بلین سال بعد وجود میں آئی، یعنی تقریبا 8 بلین سال تک کائنات میں ہماری زمین کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔

اس وقت صرف ایک ہستی موجود تھی، جو کائنات کو ترتیب دے رہی تھی، اور ہمارے لیے زمین کو سازگار بنارہی تھی۔ زمین پہلے شدید گرم تھی پھر آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہونی شروع ہوئی۔ ہماری زمین میں پانی نہیں تھا۔ پھر اس ہستی نے بڑے بڑے "برفیلے" پتھر "سولر سسٹم" کے باہر سے زمین کی طرف بھیج دیئے اور وہ زمین سے ٹکرا گئے، ان سے سمندر بنے، اس وجہ سے ناسا سائنس دان کہتے ہیں کہ جو پانی ہم پیتے ہیں، وہ پانی ہمارے سورج سے پرانا ہے یعنی اس رب العالمین نے زمین سے بھی پہلے پانی کا بندوست کیا تھا۔

وہ جانتا تھا کہ میری مخلوق کو پانی کی ضرورت پڑے گی، پھر آہستہ آہستہ زمین ٹھنڈی ہوگئی لیکن موسم کا بندوست نہیں تھا پھر اس ہستی نے ایک پتھر بھیجا اور وہ سیدھا زمین سے جا ٹکرایا جسکے نتیجے میں زمین سے ایک بڑا حصہ الگ ہوگیا، جو آہستہ آہستہ دور ہوتا گیا اور اس سے ہمارا خوبصورت چاند بن گیا، جس سے سمندر میں مدوجزر بنتے ہیں اور اس طرح مختلف موسموں کا آنا شروع ہوا۔ یعنی وہ عظیم ہستی جانتی تھی، کہ یہ سب چیزیں ہماری مخلوقات کی ضرورت ہے اس وجہ سے ان کو ترتیب دیا۔

پھر اس نے چاند کو زمین کے ساتھ لاک کیا جبکہ سورج نے زمین کو لاک نہیں کیا۔ ورنہ زمین کی ایک سائیڈ ابھی تک مکمل غیر آباد ہوتی اور ساتھ شدید سردیوں کی آماج گاہ بنی رہتی لیکن وہ ہستی جانتی تھی کہ یہاں چاند کو لاک کرنا ہے اور زمین کو مسلسل گھومنا ہے تاکہ دن رات پیدا ہوں اور ہماری مخلوقات کو آرام بھی حاصل ہو، اس لیے کہ وہ ہماری نیچر سے بخوبی واقف تھا۔

کائنات میں اربوں اور کھربوں"سیارے" موجود ہیں بعض پر ہماری ٹیکنالوجی بھی موجود ہے، لیکن وہاں درخت نہیں ہیں۔ وہاں آکسیجن نہیں ہے وہاں موسم نہیں ہے، اوزون لئیر نہیں ہے۔۔ وہاں یا تو شدید گرمی ہوتی ہے یا شدید سردی۔ یہ مقام صرف "زمین" کو حاصل ہے کہ یہاں چار چار موسم آتے ہیں۔ یہ سب کچھ اتفاق نہیں ہوسکتا کیونکہ دماغ اس چیز کی ہرگز اجازت نہیں دیتا، جو ہم اس کو مخص اتفاق مان لیں۔ آپ سوچ رہے ہونگے کہ پھر یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے کیوں بنایا ہے، جب کہ ہمارے لیے تو صرف سورج چاند اور زمین ہی کافی ہیں۔

چنانچہ جب تک "کائنات" کی وسعتوں کا درست ادراک نہیں ہو پاتا، اس وقت تک خُدا کی ذات کو حقیقی معنوں میں سمجھنا بہت مشکل ہے، اور اگر کائنات کی اتنی وسعتیں ہمیں معلوم نہ ہوتی، تو شاید ہم بھی آج خُدا کی ذات کو بہت محدود تصور کرتے، ہم پڑھتے تو تھے کہ خدا بہت بڑا ہے۔ لیکن حقیقت میں ہم خدا کو صرف اس دنیا یا زمین سے بڑا سمجھتے تھے، مگر جب سے کائنات کی وسعتوں کا اندازہ ہونے لگا ہے۔ ہمیں معلوم پڑ رہا ہے کہ اس کو بنانے والا، اس "سسٹم" کو چلانے اور قابو میں رکھنے والا ہمارا رب بہت بڑا ہے۔

Check Also

Yaroshalam Aur Tel Aviv Mein Mulaqaten

By Mubashir Ali Zaidi