Parchi
پارچی
وہ پریوں جیسے حسن کی مالک تھی، دودھیا رنگ کے چہرے یہ ہلکے سبز رنگ کی آنکھوں والی بچی کی عمر لگ بھگ کوئی گیارہ سال ہوگی۔ وہ ایک خوددار مگر غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے خاندان میں پیدا ہوئی تھی۔ رکھو اور اس کے ماں باپ شہر میں جگہ جگہ پڑے کچرے کے ڈھیروں میں سے پلاسٹک کی بوتلیں، لوہے کے ٹکڑے، گتے کے ڈبے اور دوسری کئی ایسی چیزوں کو چنتے جن کو بیچ کر وہ اپنا پیٹ پالتے تھے۔ دیکھنے والے ان کو حقارت یا ترحم کی نگاہ سے دیکھتے تھے سوائے ایک میم کے جو انہیں حسرت کی نگاہ سے دیکھتی تھی۔
وہ ہفتے میں دو مرتبہ پارچی کے فلیٹ کے سامنے والے کچرے کے ڈھیر سے چیزیں چنتے۔ پارچی ایک پچیس ستائیس برس کی دھان پان سی لڑکی تھی جو اپنے فلیٹ کی بالکونی کے جنگلے میں بیٹھی ہوا کرتی تھی۔ وہ ایک سنہری رنگت والی پرکشش لڑکی تھی جس کے انگ انگ سے اداسی پھوٹتی تھی۔ وہ اس فلیٹ میں تنہا رہتی تھی، خاندان کے نام پہ اس کا صرف ایک شوہر تھا جو مہینے میں ایک آدھ مرتبہ اپنے جسم کی تسکین کےلیے اس کے پاس آ جایا کرتا تھا، اور اس کے بعد وہ مکمل طور پہ بھول جاتا تھا کہ اس کی ایک بیوی بھی ہے۔ ماہِ وش اس جنگلے میں بیٹھ کر بائیں طرف گزرنے والی سڑک پر اس کا لاحاصل انتظار خاموشی سے کیا کرتی تھی۔ اور جس روز وہ اس کے پاس آ جاتا تو وہ سمجھتی کہ یہ اس کے صبر کا پھل ہے۔ مگر صبر کا پھل اتنا کڑوا کبھی نہیں ہوا کرتا وہ یہ کبھی نہیں سمجھ پائی۔
ایک دن اس کی تنہائی میں سبز آنکھوں والی رکھو نے مداخلت کی۔۔
باجی؟
اے باجی؟
اے سوھنی لال جوڑے آلی باجی؟
پارچی نے چونک کر نیچے دیکھا تو وہ پری چہرہ لڑکی اسے ہی بلا رہی تھی۔
ہاں بولو؟
باجی ایک بوتل ٹھنڈے پانی دی تے دے دو۔
وہ فریج سے ٹھنڈے پانی کی بوتل نکال کر اسے ایک لمبی رسی والے تھیلے میں ڈال کر جنگلے کی طرف بڑھتی ہے۔
وہ جنگلے کے چھوٹے دروازے کا تالا کھول کر رسی کی مدد سے تھیلا نیچے پھینک دیتی ہے اور رکھو پانی کی بوتل لے کر اپنے ماں باپ کے پاس چلی جاتی ہے۔
پھر اس کے بعد یہ معمول بن گیا تھا، پارچی کو رکھو کی پکار کی عادت ہوگئی۔ اس کا انتظار ہفتوں سے سکڑ کر دنوں پہ محیط ہونے لگ گیا۔ پہلے وہ ہفتوں اپنے شوہر کا انتظار کیا کرتی تھی اور اب وہ ان دنوں کا انتظار کیا کرتی کہ جب رکھو کوڑا چننے آتی تھی۔
رکھو کے اس انتظار نے اس کی ہفتوں پر محیط اذیت کو کم کرنا شروع کر دیا تھا۔
رکھو جب اسے پانی کےلیے پکارتی تو اس کی نگاہوں میں پارچی کیلئے محبت پائی جاتی۔۔ بچوں کی کھری محبت۔ آہستہ آہستہ وہ اس سے باتیں بھی کرنے لگ گئ، وہ نیچے گلی میں کھڑے ہو کر پارچی کو اپنی معصوم باتوں سے ہنسایا کرتی تھی۔
یہ وہ وقت ہوا کرتا تھا جب وہ سارا دن کوڑا چننے کے بعد سامنے والے فلیٹس کی بلڈنگ کے سائے میں سستانے لیے بیٹھتے۔ رکھو جب ماہِ وش سے باتیں کر رہی ہوتی تو وہ ایک اچٹتی نگاہ اس کے والدین پر بھی ڈال لیا کرتی۔
اس کا باپ رومال میں لائی ہوئی روٹی کو توڑ کر رکھو کی ماں کے منہ میں رکھتا اور پھر دوسرا نوالہ خود کھاتا۔
ان کے جانے کے بعد پارچی کے ذہن کے پردے پہ یہی منظر گھومتا رہتا۔ کئی مہینے گزرتے گئے، زندگی اسی معمول سے چل رہی تھی۔ اس کا شوہر بھی اس کے پاس چکر لگا جایا کرتا تھا۔۔ اب وہ اس کےلیے سجتی سنورتی نہیں تھی۔۔ کیونکہ وہ جان چکی تھی کہ مرد کو عورت میں دلچسپی صرف ایک ہی امر سے ہے، مگر رکھو کا باپ بھی تو ایک مرد تھا جو اپنی بیوی سے بے پناہ محبت کرتا تھا۔ اس کی بیوی کے پاس شاید ہی کوئی خوبصورت جوڑا ہو لیکن اسے وہ پیوند لگے لباس میں بھی کسی شہزادی سے کم نہیں دکھتی تھی۔
محبت اور انسانیت کا تعلق حسن، ڈگریوں اور امارات سے نہیں ہوا کرتا۔۔ یہ تو کرم کی بات ہے جس سے پارچی کا شوہر سب کچھ ہونے کے باجود خالی تھا اور رکھو کا باپ کچھ نہ ہونے کے باوجود اس دنیا کا امیر ترین شخص تھا کیونکہ اس کے پاس محبت تھی۔۔ اور محبت سکون کا باعث بنتی ہے۔
پارچی نے فیصلہ لے لیا تھا۔۔ اس کے دلے دماغ اور جسم نے حرکت کرنا شروع کر دی تھی۔ اس نے اپنے فلیٹ سے نکل کر ان کے پاس جانا شروع کر دیا۔ ان کے ساتھ وقت گزار کر اسے خوشی ملنا شروع ہوگئی تھی۔
وہ ان کے ساتھ کوڑا چننا شروع کر چکی تھی۔۔ اس کی اپنی ذات بھی تو ایک کچرے کا ڈھیر بن چکی تھی جس کے ملبے تلے سے اپنی عزتِ نفس کو نکالنا تھا۔
ماہِ وش کے شوہر کو آج کاروبار میں نقصان ہوا تھا، اس کا دماغ صحیح سے کام نہیں کر رہا تھا۔ وہ تکلیف میں تھا اور اپنے درد کو عارضی طور پہ سکون دینے کےلیے وہ پارچی کے پاس چلا آیا۔
اس کا فلیٹ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا، اس نے فلیٹ میں داخل ہو کر بتیاں روشن کی اور پارچی کو پکارنے لگا۔
پارچی؟
پارچی؟
آوازیں خالی دیواروں سے ٹکرا کر گونج رہی تھیں۔ ماہِ وش کہیں بھی نہیں تھی۔ اس نے اسے کال کرنے کےلیے موبائل آن کیا تو سکرین پر پارچی کا میسج جگمگا رہا تھا۔
"میں نے تمہاری بیوی بننے پر عورت بننے کو فوقیت دے دی ہے۔ ایک کوڑا چننے والی عورت نے مجھے میرے اندر کی عورت کو چننا سکھا دیا ہے۔ اور عورت محبت کی دیوی ہے
اور دیوی سے کوئی مرد محبت کرنے کا اہل نہیں ہے اس سے تو بگھوان ہی عشق کر سکتا ہے۔
تمہارے اور رکھو کے باپ میں یہی فرق ہے کہ تم ایک مرد ہو اور وہ بھگوان۔