Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Teeba Syed
  4. Iqra

Iqra

اقراء

یوں تم ہم بنی نوع انسان کی فطرت میں ایک کیفیت "میں اور میرا" بدرجہ غایت پائی جاتی ہے۔ مگر یہ "میں" کون ہے اور "میں" کو "میں" کی کتنی ضرروت ہے اس بات سے ہم مکمل ناواقف ہیں۔ ہمیں خود کے بارے میں شناسائی ہی نہیں ہے اور ہم مدتوں خود سے ملتے بھی نہیں ہیں اسی لیے ہم شیطان کی صفت والی "میں" کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ہم اگر خود کو پڑھنا شروع کر دیں تو ہمیں معلوم ہو کہ ہماری پہچان کی جڑ ایک نطفہ تھی جسے علم عطا کیا گیا تو وہ مکرم بنا، آدم کہلایا گیا۔ بابا بلھے شاہ کے مطابق " پڑھ پڑھ عالم فاضل ہویا، کدی اپنے آپ نو پڑھیا نہیں"، یعنی جب ہم اپنے آپ کے بارے میں جہالت کا شکار ہوتے ہیں تو ہم ابلیسی تکبر کا شکار ہو جاتے ہیں اور اپنا آپ عالم، عامل، اور افضل تصور کرنے لگ جاتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ہم اپنی روح میں جہنمی آگ بھر لیتے ہیں اور اس کائنات میں نفرت کا منبع بن جاتے ہیں، ہماری آنکھ صرف نفرت دیکھتی ہے، سماعتیں نفرتوں کے راگ سنتی ہیں، زبان نفرتوں کے نعرے لگاتی ہے، اور سینے میں دل کی بجائے حسد آگ بن کر دہکتا ہے۔

دوسری طرف جب کوئی خود کو پڑھ لے تو وہ خود کو ایک نطفہ و نقطہ سمجھتے ہوئے عاجزی اختیار کر لیتا ہے۔ وہ اپنی ذات سے ملتا ہے تو "میں" کا خاتمہ کرکے ہم ہو جاتا ہے اور پھر اس ایک نقطے میں پوری کائنات سمٹ کر ہم ہو جاتی ہے کیونکہ "اک نقطے وچ گل مکدی اے"۔ اور جب وہ نطفہ سر جھکاتا ہے تو نقطہ بن جاتا ہے، اور اس نقطے میں جب پوری کائنات سمٹ آتی ہے تو وہ محبت کا مرکز بن جاتا یے کیونکہ کائنات کی فطرت محبت ہے۔

محبت فقراء کی دولت ہے جو اس دنیا کے مادی معیاروں سے بالاتر ہے، اتنی عاجز ہے کہ کسی چیونٹی کے دل میں اٹھنے والے درد پہ رو دے، اور اتنی بے نیاز کے شہنشاہوں کے تخت و تاج ٹھکرا دے۔

مگر یہ عاجزی، بے نیازی یہ جذب و مستی تب ہی حاصل ہوگی جب "اقراء" سے شروع کریں گے۔ جب اپنے آپ کو پڑھیں گے، خود کو وقت دیں گے، خود سے ملاقات کریں گے، اپنی کمزوریوں اور قوتوں کا موازنہ کریں گے، خود سے، اپنے اصل سے محبت کریں گے۔

اور اقراء کا اصول ہے کہ "میں"، "میں" سے ملے تاکہ "میں" کا خاتمہ ہو اور نطفہ و نقطہ "ہم" ہو جائیں۔

Check Also

Janaze

By Zubair Hafeez