1.  Home/
  2. Blog/
  3. Teeba Syed/
  4. Bhookh

Bhookh

بھوک

"بھوک تہذیب کے آداب بھلا دیتی ہے"۔ اس ایک جملے میں انسانی نفسیات اور بنیادی ضرورت کے آپس میں ایک گہرے تعلق کو کوزے میں بند کرکے بتا دیا گیا ہے۔ بھوک وہ فطری عمل ہے کہ جس کے سامنے آپ جتنے بھی بند باندھ لیں، آپ اسے روک نہیں سکتے۔ مگر ہم جب بھی بھوک کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں صرف پیٹ کی بھوک کا خیال آتا ہے۔

بھوک صرف پیٹ کی ہی نہیں ہوتی بلکہ بھوک کی مختلف اقسام ہیں۔ میرے خیال میں اس دنیا میں سب سے عالمگیر بھوک محبت کی ہے جس سے کوئی خاص و عام نہیں بچ پاتا۔

ایک امیر ترین شخص اپنے پیٹ کی بھوک کا تدارک تو پیسے سے کر سکتا ہے، لیکن محبت کی بھوک کے سامنے وہ بھی اتنا ہی بےبس ہوگا جتنا ایک غریب ترین انسان۔ خود کو جھوٹی تسلی دلانے کے لیے وہ نت نئے رشتے اپنی دولت سے خرید تو لیتا ہے مگر وہ محبت کا نعم البدل کبھی بھی نہیں ہوسکتے۔

کنواروں کو لگتا ہے کہ اس دنیا میں محبت کی کمی کا صرف وہی شکار ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں شادی شدہ جوڑے کنواروں سے زیادہ محبت کی کمی کا شکار ہیں۔ ایک چھت تلے رہنا کبھی محبت کی گارنٹی نہیں دیتا۔

اسی طرح ہم کسی کامیاب اور سب کے دلوں پر راج کرنے والے شخص کی تنہائیوں میں جھانک لیں تو ہماری آنکھیں بھیگ جائیں کہ جس پر ساری دنیا مرتی ہے وہ اس دنیا میں کس قدر اکیلا ہے۔

بھوک تہذیب کے اداب بھلا دیتی ہے تو ذرا سوچیں کہ محبت کی بھوک انسان کے اخلاقی معیار اور رشتوں کے تقدس کا خیال رکھ سکتی ہے؟ ایک محبت کی کمی کا شکار انسان سے تہذیب کی امید رکھنا ہی احمقانہ فعل ہے۔

اب کوئی انسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ اسے محبت کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر وہ ذی روح جو سانس لیتی ہے۔ اسے خوش رہنے کے لیے محبت کی ضرورت ہے۔ مجھے پاکستان میں ہر دوسرا شخص مرجھائے ہوئے چہرے پہ باسی مسکراہٹ سجائے نظر آتا ہے۔ کیوں؟

بدقسمتی سے کئی دہائیوں سے ہم نے اپنے آباء کو نفرتوں کی آگ کا ایندھن بنتے دیکھا ہے۔ ہم ان کے بطن سے نہیں اس آگ سے پیدا ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم محبت کا پرچم اٹھانا گناہ اور محبت کا نعرہ لگانا بے حیائی سمجھتے ہیں، اور محبت کی بھوک کو بڑھائے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ ہم بھوک سے باولے ہو جاتے ہیں اور اپنی بھوک مٹانے کےلیے بند دروازوں کے پیچھے تہذیب کے سارے آداب کا قتل کر دیتے ہیں۔

اس سے بہتر نہیں ہے کہ ہم تسلیم کر لیں کہ بطور انسان ہمیں محبت کی ضرورت ہے اور اس کی قلت ہمیں پاگل کر دے گی اور ہم اس پاگل پن سے بچنے کےلیے محبت کو گلے سے لگا لیں؟ محبت کرنا، اور خوش رہنے کو اولین ترجیح دینا شروع کر دیں۔

اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ نفرتوں کے اظہار کو بےحیائی سمجھا جائے اور محبت کو اظہار کی اجازت دی جائے تاکہ چمن میں پت جھڑ کی جگہ بہار اپنے غنچے کھلائے۔ وگرنہ تہذیب کے آداب مکمل طور پر مٹا دئیے جائیں گے۔

احتیاط علاج سے بہتر ہے۔

Check Also

Heera Mandi

By Mansoor Nadeem