Sattay Ei Khairan
ستے ای خیراں
برصغیر کی زمین صرف کھیتی باڑی اور کاشت کاری کے حوالے ہی سے زرخیز نہیں ہے بلکہ یہاں کی تہذیب و تمدن، بودوباش، رہن سہن اور روزمرہ کی زندگی کی رونقیں بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں اور کئی صدیوں قبل سے یہاں آنے والے حکمراں اپنے ساتھ اپنے علاقے کی تہذیب اور اپنی جگہ کی ثقافت بھی ساتھ لاتے رہے۔ یہ معاشرہ تب بھی اس قدر بالغ تھا کہ اس نے آنے والوں کی اچھی باتیں اور عمدہ چیزیں اپنی روزمرہ کی زندگی میں شامل کر لیں۔ لیکن اپنی ثقافت کو کثافت سے بچائے رکھا۔ اسی ارتقائی عمل نے اس خطے کو اردو زبان جیسی نئی زبان بخشی۔
پنجاب کی ثقافت بھی مختلف اور منفرد رنگوں سے مزّین ہے۔ بڑوں کی عزت و احترام کا معاملہ ہو یا بچوں پہ شفقت، شادی بیاہ ہو یا دیگر تقریبات، غمی خوشی کے موقعوں پہ اخوت کا مظاہرہ ہو یا دیسی کھیل، میلے کا سماں ہو یا فصل کی کٹائی کا کام، بدلتے موسموں کے پہناوے ہوں یا کھابوں کی پھیلتی خوشبو، اچار والے مرتبان ہوں یا اناج ذخیرہ کرنے کے بھڑولے، کھیتوں میں سجے قدرتی رنگ ہوں یا للاری کی رنگی ہوئی مٹیاروں کی چنیاں، گھوڑوں کے ٹاپوں سے گرد اٹے رستے ہوں یا کسی کچی نہر میں بیٹھے مویشی۔ سب کے منفرد اور دیدہ زیب رنگ ہیں۔
ایسا ہی ایک رنگ ہمارے روزمرہ کے جملے "ستے ای خیراں" کا بھی ہے۔ جس کا لفظی مفہوم تو یہی ہے کہ سب ٹھیک ہے اور راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ لیکن اس سادہ سے جملے کی ساری گہرائی لفظ "ست" میں ہے۔ پنجابی زبان میں سات کو ست کہتے ہیں۔ اس تناظر میں اس کا لفظی ترجمہ بنے گا کہ ساتوں ہی ٹھیک ہیں۔ یعنی اس ایک جملے میں سات مختلف چیزوں کے درست اور ٹھیک ٹھاک ہونے کا یک لخت ہی بتا دیا جاتا ہے کہ اگلا بندہ مزید گوشمالی نہ کرے۔ یہ سات چیزیں کون سی ہیں تو ان معروف چیزوں کو آج کے تیز رفتار انٹرنیٹ کی بدولت بآسانی ڈھونڈا اور دیکھا جا سکتا ہے۔
سرِ دست "ست" کے ایک اور پہلو کو بیان کرنا مقصود ہے۔ جو اس مضمون کا اصل محرک ہے۔ "ست" کا ایک اور مطلب بھی ہے۔ سچائی، اس تناظر میں اس جملے کا مطلب ہوا کہ سچائی ہی کو خیر ہے۔
بالفاظِ دیگر اگر سچ کو ڈھونڈ لیں گے تو خیر کو پا لیں گے۔
سچ یہاں فاعل (سبجیکٹ) ہے، اسے فعل (ورب) میں نہیں سمجھنا۔
کیونکہ فعل والے سچ کی تلاش ثانوی اہمیت کی ہے کہ وہ ہر کسی کا اپنا اپنا سچ ہوتا ہے۔ اگر اصل اور فاعل والے سچ کو پا لیا تو پھر سچ جس شکل میں بھی ہوا، اس تک ہم ہر طور پہنچ جائیں گے۔
درسی کتب میں بھی ہم پرھتے پڑھاتے رہے کہ سچ کو آنچ نہیں۔ سچ لاکھ پردوں میں چھپا لیں، اس پہ کالک مل دیں، اس کو گہنا دیں لیکن پھر بھی اس کی اصل ظاہر ہو جاتی ہے۔ لیکن اس کے لئے سچ کو کھوجنا اور اس کی جستجو لازم ہے۔
دانائے راز بتاتے ہیں کہ پانی اس دنیا میں حقیقت کا مظہر ہے۔ تو کیا کبھی کوئی پانی کا رستہ روک پایا ہے، پانی اپنا راستہ خود بناتا ہوا اپنی راہ چلتا رہتا ہے۔ کیا دریا نے کبھی کسی سے سمندر کا راستہ پوچھا ہے۔ سچ بھی اپنے آپ میں ایسی ہی ایک اٹل حقیقت ہے۔ اس سچے (رب) کی تلاش اور جستجو ہی اصل داستاں بلکہ مقصودِ داستاں ہے۔ وہی سچا ہر سچ تک پہنچا دے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ سچ ہی کو زندگی کے کسی موڑ پہ آپ کے سامنے لا کھڑا کرے اور یقیناً وہ اس پہ کامل اور مطلق قدرت رکھتا ہے۔