Fas-Force
فاس-فورس
بچپن میں گھڑی کی چمکتی سوئیاں ہی ایک عجوبہ ہوتی تھیں۔ ہاتھ میں گھڑی چھپا کے سب دوستوں کو دکھائی جاتی تھی کہ دیکھو اس کی سوئیاں اندھیرے میں کیسے چمکتی ہیں۔ لیکن کبھی کبھار یہ چمک اچانک سے ختم ہو جاتی تھی اور پھر خود ہی لوٹ بھی آتی تھی۔ اس خودکار انقطاع (ڈس کانٹی نیوٹی) کو سمجھنے سے ذہن قاصر تھا۔ بہت عرصے بعد یہ گتھی سائنس کے اساتذہ نے سلجھائی کہ اس میں فاسفورس استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ دن میں سورج کی روشنی کو جذب کرتا ہے اور اندھیرے میں وہ اسی روشنی کے باعث چمکدار نظر آتا ہے۔
فاسفورس بھی اپنے تئیں مجذوب ہے کہ روشنی کو اپنے بھیتر جذب کرتا رہتا ہے، اپنے اندر اتارتا رہتا ہے، خود کو بھرتا رہتا ہےاور جب کبھی اس کے اردگرد اندھیرا ہو جائے، سیاہی پھیل جائے، بیرونی روشنیاں مدھم پڑ جائیں تو فاسفورس اسی جذب کی ہوئی روشنی سے کچھ اجالا، کچھ چمک پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ فاسفورس کی یہ چمک، چکاچوند پیدا نہیں کرتی، آنکھوں کی خیرہ نہیں کرتی، آنکھوں کو چندھیاتی نہیں بلکہ پہلے سے جذب شدہ روشنی ہی نہایت مدھر روپ میں واپس منعکس ہوتی ہے۔
بچپن سے زمانہ آگے بڑھا تو یونیورسٹی کی غیر نصابی (ایکسٹرا کریکولم) سرگرمیوں کا بھی خوب لطف رہا۔ بطور بے روزگار طالبعلم کبھی بھی اتنے پیسے نہ ہوتے تھے کہ کسی کردار کی بہترین عکاسی کے لئے اس سے متعلقہ اشیاء خرید سکتے۔ تو ڈھنگ ٹپاوَ پروگرام کے تحت دستیاب وسائل ہی سے کوئی نہ کوئی حل نکال لیا جاتا تھا۔ ابھی یہ تحریر کرتے یاد آرہا ہے کہ جب بادشاہ سلامت کے چوبدار کے لئے تلواریں میسر نہیں تھیں تو کیسے پلاسٹک کی ہوا والی تلواروں سے کام چلایا گیا۔ ایک صاحب نے اعتراض کیا تو یہی عرض کی کہ خاکہ (سکرپٹ) چونکہ مخولیا سا ہے تو ان پلاسٹک کی تلواروں سے مزاح کا عنصر مزید وضع اور واضح ہو جائے گا۔
اسی طرح جب ایک کردار کو شہزادہ سلیم اور ہندوستاں کی سلطنت کا ولی عہد دکھانا مقصود تھا تو کیسے ریڑھی سے خریدی گئی اک عام سی ٹوپی کو کیسے تاج کی شکل دی گئی۔ اس دن صحیح معنوں میں روشنی کی مخفی اور خود کی خوابیدہ صلاحتیوں کی جھلک نظر آئی۔ تاج تو بن گیا لیکن نئی افتاد یہ آن پڑی کہ تلواریں ختم ہوگئیں۔ تو اب شہزادے کو باقی کرداروں اور بالخصوص محافظوں سے منفرد بنانے کے لئے ایک تلوار اور ساتھ میں اسی پلاسٹک کی بنی ایک کلہاڑی بھی تھما دی گئی کہ شہزادے کا مال و متاع زیادہ لگے۔
یونیورسٹی کی چکا چوند سے جب معاملات صحرانووردی کے سپرد ہوئے اور بات دو جمع دو والی ہونے لگی تو مادری زباں سے ہٹ کے اور بھی بہت سے الفاظ کے معانی اور ان معانی کے خفی و جلی مفہوم خوب سمجھ آئے۔ کچھ تو آسانی سے ازبر ہو گئے اور بہت سے مفہوم زور و زبردستی بتائے اور سمجھائے گئے کہ انہی سے زندگی کی نیّا آگے چلے گی۔ ان٘ہی نئے نئے الفاظ میں سے ایک لفظ کلہاڑی ہے۔ کلہاڑی کو عربی زباں میں "الفأس" کہتے ہیں۔
زمانے کے حالات اچانک سے دگرگوں نہیں ہوتے۔ عروج و زوال کا سلسلہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا۔ کب کیسے اور کہاں بازی پلٹ جائے کوئی نہیں جانتا۔ اس لئے جب ماحول سازگار ہو، صحت ہو، جوانی ہو، ہر طرح کی ریل پیل ہو تو اس کو غنیمت جانتے ہوئے اپنے عروج کے دور میں خوب خوب جذب کریں۔ پیار، محبت، ایثار، قدر، اہمیت، عزت، حتیٰ کے مال سب بانٹیں کہ اسی بانٹنے میں خیر ہے اور اصل راز تو اسی بانٹنے میں پانے کا ہے۔ یہ سب بانٹیں گے تو یہی سب لوٹ کے واپس آئے گا۔ جتنا جائے گا اس سے زیادہ واپس ملے گا۔
جب کبھی آزمائش کے لئے عروج کو زوال سے بدلا جائے تو فاسفورس کی طرح جو کچھ بھی اپنے اندر اور اپنے بھیتر جذب کیا تھا اس کی مدھر لاٹ نکال لیں۔ اگر حالات نے اپنی "الفأس" نکال ہی لی ہے تو ہم پہ بھی لازم ہے کہ اپنے اندر کی "فورس" کو باہر نکالیں۔ وہی جو قوتِ ارادی، قوتِ تخیل اور قوتِ مقصد کہلاتی ہے۔ اسی سے ہم اپنی منزل کی طرف پھر سےگامزن ہو سکیں گے کہ یہی قوت ہماری یکسوئی کو جلا بخشے گی اور یہی جلا ہمیں اصل اور حقیقی قوت (اللہ رب العزت) تک پہنچائے گی، جہاں سے سب کو سب عطا ہوتا ہے۔