Aur Dunya Gol Bhi Hai
اور دُنیا گول بھی ہے
باقاعدہ طے شدہ ملاقات میں لباس کا نتخاب بھی ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ اکثر بے تکلف دوست احباب کی ملاقاتوں میں غیر رسمی لباس بھی چل جاتا ہے اور بعض اہم ملاقاتوں میں رسمی لباس کا اہتمام باقاعدہ تکلف سے کیا جاتا ہے۔ ایسی ہی ایک ملاقات درپیش تھی کہ جس میں ملاقاتی بے تکلف تو ضرور تھا لیکن اس سے ڈیڑھ دھائی سے زیادہ پہ محیط تعلق سراسر باہمی عزت و تکریم، اعلیٰ احترام کی اقدار اور محبت و عقیدت سے لبریز تھا۔ دونوں نے یہ عزت، احترام، تکریم اور محبت محض اپنے کام، صلاحیت، قابلیت، مہارت اور کارکردگی کی بنیاد پہ کمائی تھی۔
کافی سوچ بچار کے بعد اسی نکتے نے عقدہ کھولا کہ جس بنیاد پہ اس تعلق کی شروعات ہوئی اور جس بنیاد پہ اس تعلق کی یہ عمارت اب تک استورا ہے تو کیوں نہ اسی بنیاد کے بنیادی لباس کو زیبِ تن کیا جائے۔ یہ اپنی طرف سے اپنے ملاقاتی دوست کے لئے خراجِ عقیدت کا اظہار بھی تھا اور خراجِ تحسین بھی۔ اس کی پیشہ وارانہ صلاحتیوں کا اعتراف بھی تھا اور اس کی قابلیت و استعداد کا ادراک بھی۔
کم و بیش تین ہزار کلومیٹر کا سفر طے کر چکا تھا۔ دماغ میں بہت کچھ چل رہا تھا۔ سوچا کہ پہلی ملاقات کب اور کن حالات میں ہوئی تھی تو اس سے پہلی ملاقات کی یاد امڈ آئی:
یہ بتاوَ کہ ٹرانسفارمر اور دیگر آلات کے کنکشنز کے لئے آپ کو بجلی کی تاروں کا کیسے پتا چلے گا؟
وی وِل یوز کیبل سکیجوّل فار دس۔۔
یوں اردو اور بدیسی زبان کی گفتگو فقط اس ایک سوال پہ مبنی نہ تھی۔ بلکہ بیس منٹ کے اس سوال و جواب کی نشست (سیشن) میں پہلے پہل کی ساری گفتگو ایسے ہی چلی۔ اردو زبان میں سوال پوچھا جاتا تو آگے سے جواب انگریزی میں ملتا۔ ناچار اس بدیسی گنگا میں چبھی (ڈبکی) لگانی پڑی کہ کہیں اپنی ہی قابلیت پہ سوال نہ اٹھ جائے۔
لاہور کے نواح میں موسمِ بہار کی آمد آمد تھی۔ تب تک ہم صرف فوگ (دھند) سے واقف تھے، سموگ کا تو نام و پتا ہی وہم و گماں میں نہ تھا۔ ایسے ہی ایک خوبصورت دن ہم سب مہندسین (انجینئرز) کام کی غرض سے تعمیراتی سائیٹ پہ موجود تھے۔ تو ایک سی وی آئی کہ بندہ بنفسِ نفیس موجود ہے تو اس کا انٹرویو کرکے دیکھ لیں اور اگر مطلوبہ مہارت کا حامل ہو تو رکھ لیا جائے۔ یوں یہ انٹرویو نذیر احمد سے پہلی ملاقات کا سبب بنا۔
نذیر اور مجھ میں تین باتیں مشترک تھیں جو ہمیں نہ صرف باہمی تعلق (ٹیم بلڈنگ) کو مضبوط کرنے میں بہت کام آئیں بلکہ انہی کی بنیاد پہ ہم طویل مدتی پیشہ وارانہ تعلق میں جڑ گئے۔ دونوں عہد شباب میں تھے تو کام کے پیچھے پڑ جاتے تھے کہ جب تک تسلی نہ ہو جائے۔ دوسرا ہم دونوں تھوڑا بہت اپنے کام کا پہلے سے تجربہ رکھتے تھے تو یہی دھن تھی کہ اپنے تجربے کو مزید نکھاریں اور بہتری کی صورتحال پیدا کر سکیں۔ تیسرا ہم دونوں کی کرکٹ میں دلچسپی تھی جس کے باعث تفریح کے مواقع بھی نکال لیتے تھے۔
ہم دونوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کے بہت سے نئے کام سیکھے، نئے تجربات کی داغ بیل ڈالی اور کئی اہداف اپنے مقررہ مدت میں پورے کئے۔ ٹھٹھرتی سردیوں کی راتوں میں ششک برقی مبدل (ڈرائی ٹائپ ٹرانسفارمر) کی تنصیب کا کام ہو یا ھاڑ کے مہنیوں میں گرڈ اسٹیشن کا کام۔ آہنی سیڑھیوں کی چڑھائی جیسا ورزشی مرحلہ ہو یا تصفیه آب (واٹر ٹریٹمنٹ) کی تنصیب جیسا خالصتاً عملی اور تکنیکی کام۔ اپنے تئیں ہم دونوں اپنے اپنے حصے کا کام بخوبی انجام دیتے رہے۔
وقت نے کروٹ لی تو ایسی ہی ٹیم بلڈنگ کی ضرورت ہمیں وطن سے دور بلکہ دور دراز کے صحراوَں کے بیچ و بیچ کھینچ کے لے گئی۔ وسائل کی کمی اور بعض اوقات عدم دستیابی کے باعث کام کی پیش رفت مطلوبہ حد تک نہ پہنچ پاتی۔ یہاں صحیح معنوں میں اپنے تجربے کو کھنگالنے اور اسے بروئے کار لانے کا موقع ملا۔ اس کی مثال کے لئے نذیر اکثر کہتا ہے کہ اس پراجیکٹ پہ سادہ لکڑی کے پیمانے سے زیرِ زمین تانبے کے تاروں (کاپر کنڈکٹر) کی لمبائی نکالنا ہمیشہ یاد رہے گا۔
کم و بیش دس سال کے وقفے کے بعد یہ ملاقات ایک اور صحرا میں خوبصورت سمندر کے کنارے ہوئی۔ ہمیشہ کی طرح مسکراتا چہرہ، چمکتی آنکھیں، بلند آواز، ہمہ وقت مدد کے لئے تیار اور مستعدد، باریک بینی سے اپنے کام کی منصوبہ سازی، پابندی وقت اور ہمیشہ کی طرح کا احترام۔
یقیناً دنیا بہت چھوٹی ہے اور خوبصورتی یہ کہ دنیا گول بھی ہے۔ ایسے اچھے دوست کسی نہ کسی موڑ پہ پھر سے مل جاتے ہیں اور یہ ملاقات اتنی حوصلہ افزاء، توانائی بخش اور موثر ہوتی ہے کہ اس کی فعال افادیت کا اثر بہت دیر تک رہتا ہے۔