Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Taseer Zaman
  4. Zehni Tanao Mein Mubtala Muashra (2)

Zehni Tanao Mein Mubtala Muashra (2)

ذھنی تناؤ میں مبتلا معاشرہ (2)

جس ملک اور معاشرے کے سیاستدان سیاست اس لیے کر رہے ہوں کہ وہ بے جا پروٹوکول لے سکیں۔ پولیس اور سیکورٹی اہلکاروں کے نرغے میں چلتے ہوئے عام ٹریفک کو گھنٹوں کھڑا کرنے کا اختیار حاصل کرسکیں۔ اپنے اور اپنی فیملیز کے لیے بلیو پاسپورٹ، اور ائر پورٹس پر وی آئی پی لاؤنج کی سہولت حاصل کر سکیں۔ اپنے کاروبار اور ٹھیکوں میں بلا کسی قانونی رکاوٹ کے اضافہ کر سکیں۔ جہاں سول و ملٹری بیورو کریسی میں والدین اولاد کو اس لیے شامل کروائیں کہ ان کے خاندان کو خاص مراعات حاصل ہو سکیں۔ وہ کہنیاں مار کر، اپنے بچوں اور رشتہ داروں کے نام کی دھونس دے کر اپنے کام نکلوا سکیں، عام لوگوں اور نچلے درجے کے اہلکاروں کو دھمکا سکیں۔

جہاں نوجوان صرف اس لیے سی ایس ایس کی تیاری کریں کہ ان کو اے سی والا دفتر، ویگو گاڑی، سیکورٹی اہلکار مل سکیں۔ جبکہ اس عہدے کے فرائض پورے کرنے اور خدمات فراہم کرنے کا دور دور تک ان کے ذھن میں شائبہ تک نہ ہو۔ جہاں صنعتکار صرف اور صرف اپنی کمائی اور مفاد کے لیے کوئی بھی قومی اور اخلاقی جرم کرنے سے گریز نہ کریں۔ ان کے ذھن میں کبھی اپنے ملک کے نوجوانوں کی فنّی مہارت میں اضافے اور ان کو ایجاد و دریافت کی طرف راغب کرنے کا خیال بھی نہ گزرے۔ اس معاشرے میں انسانیت کیسے پنپ سکتی ہے۔ وہاں فقط ایک ہی کھیل کو فروغ ہوتا ہے اور وہ ہے طاقت اور دولت حاصل کرنے کا کھیل۔ جب انسانیت صرف دولت سے ناپی جانے لگے۔ جب حق صرف طاقت کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکے۔ تو پھر معاشرے کا ہر فرد اس اکھاڑے میں کودے گا۔ جنگل کے قانون کے مطابق جس کے جتنے مضبوط دانت اور نوکیلے ناخن ہو نگے اتنا ہی وہ زیادہ حصے کا حقدار ہوگا۔ جنگل میں تہذیب نہیں پنپ سکتی۔ جانور کو سدھایا تو جا سکتا ہے مگر انسان نہیں بنایا جاسکتا۔

معاشرے کے وہ دانشور جو کہ اسی معاشرے کی چکی میں پھنسے ہوئے ہیں اور کسی نہ کسی طاقتور کے دامن سے لگے ہوئے ہیں۔ وہ عوام کو جاہل، وحشی اور بد تہذیب قرار دیتے ہیں۔ اہل سیاست اپنے مخالفین اور ان کے پیرو کاروں کو بد تہذیب، بد زبان، کج فہم اور بری تربیت کے پروردہ سمجھتے ہیں۔ بڑے عہدوں والے نچلے درجے کے ملازمین کو عقل سے عاری، بے اعتبار و بے ایمان گردانتے ہیں۔ صنعتکار اپنے مزدروں کو لالچی، ہٹ دھرم اور نالائق سمجھتے ہیں۔

مگر اصل وجوہات پر کوئی دھیان نہیں دیتا کہ لالچ، بد تہذیبی، بے ادبی، بے ایمانی اور نالائقی کی وجوہات کیا ہیں۔ معاشرہ بحیثیت مجموعی کیوں اخلاقی پستی کا شکار ہے۔

ایک امریکن ماہر عمرانیات پروفیسر "موری شوارٹز" نے کہا ہے "کسی فرد یا معاشرے میں کمینہ پن اس وقت آتا ہے۔ جب وہ عدم تحفظ کا شکار ہوجاتا ہے۔ وہ خود کو، اپنے اہل خانہ کو بچانے کے لیے کمینہ پن پر اتر آتا ہے۔ وہ عہدے کو بچانے کے لیے، دولت جمع کرنے کے لیے غلط راستے اختیار کرتا ہے"۔

اگر معاشرے کے افراد کو یہ یقین کامل حاصل ہو جائے کہ اس کا عہدہ ذاتی رنجش یا کسی طاقتور کا مفاد نہ پورا کرنے پر ختم نہیں ہوگا۔ تو وہ اپنے فرائض ایمانداری سے انجام دے گا اور خدمات حقدار کو دے گا۔ اگر معاشرے کے ہر فرد کو یقین ہو کہ اس کا حق اس کا ہے۔ اس کو حاصل کرنے کے لیے پیسے، عہدے یا سفارش کی ضرورت نہیں پڑے گی تو وہ عہدے دولت اور طاقت کے حصول کے لیے ہتھکنڈے استعمال نہیں کرے گا۔

ابتدا میں بیان کیے گئے رویے ہمارے معاشرے میں موجود عدم مساوات، معمولی سے معمولی خدمات کے کیلیے پیش آنے والی رکاوٹوں اور تکالیف اور حق نہ ملنے کے احساس اور عدم تحفظ سے پیدا ہونے والے ذھنی تناؤ کی فقط ظاہری علامات ہیں۔ معاشرے میں موجود عدم مساوات اور عدم تحفظ اشرافیہ، متوسط طبقے اور نچلے طبقے کے لوگوں کو مختلف انداز سے متاثر کر رہا ہے۔

ہمارا اشرافیہ احساس برتری، بے تحاشا لالچ، اور خود غرضی کا شکار ہے جبکہ ان سب علامات کے ساتھ ساتھ ان میں بے خوابی، فوبیا، تشدد اور خودکشی کا رجحان پایا جاتا ہے۔ متوسط طبقے میں غلامی اور چاپلوسی، دوسروں کے حق پر زبردستی قبضہ کرنے، دولت جمع کرنے کے لیے ناجائز راستے اختیار کرنا، گھریلو تشدد، لڑائی جھگڑے، قتل اور خودکشی کا رجحان عام ہے جبکہ نچلے طبقے میں چوری، ڈکیتی، گھریلو تشدد، عزت نفس کا فقدان اور رذالت کا رجحان ہے۔

ذھنی تناؤ کی یہ سب ظاہری علامات صرف پڑھ کر ہی آپ کو اندازہ ہوگا کہ ہمارا معاشرہ کیسی آتش فشاں پر قدم رکھے کھڑا ہے۔ کیا ان علامات کے ہوتے اس معاشرے میں یا ایسے معاشرے کے حامل ملک میں امن، سلامتی، خوشحالی، اور سکون کا امکان ہو سکتا ہے؟

مادی ترقی بھی شاید کسی ملک اور معاشرے کی خوشحالی کی علامت ہوگی مگر وہ فی الحال ہماری معاشی استعداد سے بہت ہی ماورا ہے۔

ہمارے اہل دانش، علماء، اور عوام کا اہل سیاست و اقتدار سے بس یہی مطالبہ ہونا چاہیے کہ جو کام بغیر خرچ کے اور قرضہ لیے بغیر کیا جا سکتا ہے بس وہ کرلیں۔ ہمارے معاشرے کو مساوات، مالی و خاندانی تحفظ، عدل و انصاف اور حقوق و خدمات کی بغیر کسی سفارش، بلا دقت و بلا تفریق فراہمی سے نواز دیں۔۔ ہمیں اس مستقل ذھنی تناؤ سے نجات دلا دیں۔

Check Also

Lucy

By Rauf Klasra