1.  Home
  2. Blog
  3. Taseer Zaman
  4. Zehni Tanao Mein Mubtala Muashra (1)

Zehni Tanao Mein Mubtala Muashra (1)

ذہنی تناؤ میں مبتلا معاشرہ (1)

آپ اگر غور کریں تو آپ کو کئی مرتبہ تجربہ ہوا ہوگا کہ آپ کے ارد گرد رہنے والے، تاجر، گاڑی چلانے والے یا دیگر شعبوں سے متعلق لوگ حتی کہ آپ خود بھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر گلی، بازار، اور سڑکوں پر دن بھر آپس میں معمولی باتوں پر تکرار، گالم گلوچ اور ہاتھا پائی کے واقعات میں ملوث ہوتے ہیں۔ کیا آپ نے اس بات پر بھی کبھی غور کیا ہے کہ آخر ہمارے معاشرے میں اس قدر جھنجلاہٹ اور عدم برداشت کیوں اور کس وجہ سے سرایت کر گئی ہے؟

ترقی یافتہ ممالک میں معاشرتی رویوں پر تحقیق ایک روز مرہ کا معمول ہے۔ اکثرو بیشتر مختلف انسانی رویوں پر تحقیقات ہوتی رہتی ہیں۔ ہمارے ملک میں یوں تو طب کے سارے شعبوں میں ماہرین کی کمی ہے مگر ماہرین نفسیات تو سرے سے مفقود ہیں۔ طب کا یہ شعبہ ہمارے اہل اختیار کے وہم وگمان میں بھی شاید نہ آیا ہو جبکہ ان کو ذاتی طور پر اس کی سب سے اشد ضرورت ہے۔

بات ہو رہی تھی مغرب میں منفی انسانی رویوں پر تحقیق اس کی وجوہات اور سد باب کی تجاویز پر غور کیا جاتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں ذھنی امراض کے ہسپتالوں میں ماہرین کی کمی ہے تو تحقیق کے لیے ماہرین کہاں سے آئیں گے۔ خیر ہمارے معاشرے میں موجود عدم برداشت اور جھنجلاہٹ کی وجوہات جاننے کے لیے کسی نفسیات میں ماہر ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ وجوہات ہر طرف بکھری ہوئی ہیں اور اہل نظر و دانش سے چھپی نہیں ہیں۔

ہمارے ملک کی سیاست، بیورو کریسی، اداروں، سکول، بازار، تجارت یا کھیل کے میدان حتی کہ کسی بھی شعبے کو اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو کہیں بھی آپ کو نظام زندگی ہموار اور باسہولت نظر نہیں آئے گا۔ ہر شعبہ گو نا گوں مسائل سے نبرد آزما ہے اور اس شعبے سے متعلق افراد و اہلکار اس سے بھی زیادہ الجھنوں، مشکلات اور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔

آپ تجربہ کر لیں بلکہ اگر آپ معاشرے کے متوسط طبقے سے ہیں تو کئی مرتبہ اس تجربے سے گزرے ہوں گے کہ معمولی کام جیسے فقط بجلی یا گیس کا بل جمع کرانے، کوئی لائسنس لینے، یا اکاؤنٹ کھولنے میں بھی ایسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ دانتوں تلے پسینہ آجاتا ہے۔

کسی بھی ادارے میں چلے جائیں آپ کو وہاں اتنے دھکے کھانے پڑتے ہیں کہ آپ اس کام سے ہی توبہ تائب ہو جاتے ہیں۔ معمولی معمولی سرکاری و غیر سرکاری خدمات کے لیے کوئی تگڑی سفارش نہ ہو تو آپ سے کوئی سیدھے منہ بات کرنے کا روادار نہیں ہوتا۔

جبکہ آپ کسی بھی ترقی یافتہ، فلاحی ملک سے آنے والے لوگوں سے بات چیت کریں ان سے اس بارے میں تجربات پوچھیں تو جو واقعات و تجربات وہ سناتے ہیں۔ ہم میں سے اکثر یقین نہ کرنے والے انداز سے سنتے ہیں اور مبالغہ آرائی سی محسوس ہوتی ہے۔ کئی لوگوں سے سنا کہ آپ کسی ادارے میں جائیں تو ایک میز سے دوسرے میز پر بھیجنے کی بجائے آپ کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔

آپ کی مانگی ہوئی سہولت یا شکایت کو فورا پراسیس میں ڈال کر آپ کو بتایا جاتا ہے کہ جیسے ہی اس پر عمل درآمد ہو جائے گا تو آپ کو کال یا ای میل کے ذریعے مطلع کردیا جائے گا اور پھر آپ کو اپنی درخواست یا فائل کو نہ تو پہیے لگانے پڑتے ہیں نہ ہی روزانہ جا کر فریاد کرنی پڑتی ہے۔ نہ آپ کو ایم پی اے کی سفارش درکار ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی تعلقدار یا ایجنٹ ڈھونڈنا پڑتا ہے۔

ہمیں تسلیم ہے کہ ہم ایک غریب ملک کے باسی ہیں۔ ہمارے پاس ڈالر نہیں ہیں اور قرضوں پر ہمارا گزارہ چل رہا ہے۔ ہم ان ملکوں کے ہوائی جہازوں، ٹرینوں، میٹروز، اور دیگر ایجادات و تعمیرات کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور نہ ہی یہ خواب دیکھنے کی جرات کر سکتے ہیں مگر وہاں کی سب سے بڑی سہولت جو کہ بالکل مفت مہیا کی جاسکتی ہے یعنی انسانیت کی قدر، انسان کو انسان سمجھنے کی سہولت۔ وہ کیوں اس ملک میں دستیاب نہیں ہے؟

یہاں کسی غریب، مفلس، اعلی عہدہ نہ رکھنے والوں، کسی طاقتور ادارے سے غیر وابسطہ افراد کو انسان شمار نہیں کیا جاتا۔ جبکہ ان کو انسان سمجھنے کے لیے تو ڈالرز کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ نہ ہی کسی قرض خواہ ملک کی تائید درکار ہے۔ تو پھر ہمارے معاشرے کے باسی اس سہولت سے کیوں محروم ہیں؟ کیا ہم اس ملک میں کسی انسان کے ساتھ اچھا اور مہذب رویہ اختیار کرنے کے مطالبے کو بھی ایک دیوانے کا خواب ہی شمار کریں؟

بدقسمتی ہمارے ملک اور اس کے معاشرے کی یہی ہے کہ جو کام ڈالرز سے ہونا ہے، جس کے لیے قرضہ لینا پڑتا ہے۔ وہ تو ہمارے اہل سیاست و اقتدار دھڑلے اور فخر سے کرتے ہیں۔ چاہے وہ وزیروں اور افسرشاہی کے لیے پر تعیش گاڑیوں کی فراہمی ہو۔ دفاتر میں مرکزی اییر کنڈیشننگ کا نظام نصب کرنا ہو۔ اورنج، میٹرو اور بی آر ٹی چلانا ہو۔ نام ونمود کے منصوبے بنانے ہوں اس کے لیے قرض کے اربوں ڈالر جھونک دیے جاتے ہیں۔ مگر وہ ترقی جو مغربی اقوام نے فقط انسانیت کی عزت و ترقی کے مد میں کی ہے اس کی طرف دزدیدہ نگاہ سے بھی دیکھنا گوارہ نہیں کرتے۔

جاری ہے۔۔

Check Also

Madawa Kon Kare Ga?

By Dr. Ijaz Ahmad