Wednesday, 06 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Taseer Zaman
  4. Sheikh Chilli Ke Khwab

Sheikh Chilli Ke Khwab

شیخ چلی کے خواب

بہت سے لطیفے دنیا میں بنتے ہیں، کچھ کسی سچے واقعات کی بنیاد پر بنتے ہیں اور کچھ تخلیقی اذہان کی تخلیق ہوتے ہیں۔ بعض لطیفے فقط ہنسی مذاق اور دل لگی کا ذریعہ ہوتے ہیں جبکہ کئی لطیفے سبق آموز حکایات پر مبنی ہوتے ہیں جو کہ اپنے اندر ایک نصیحت بھی سموئے ہوئے ہوتے ہیں۔ بہر حال لطیفوں سے سب ہی لطف اندوز ہوتے ہیں کچھ لطیفوں کو شہرت دوام حاصل ہے اور نسل در نسل یہ اپنی تازگی اور شگفتگی کو بر قرار رکھتے ہیں۔ جن میں سے ایک شیخ چلی کے خوابوں کا لطیفہ شہرت دوام پا کر محاورے کی حیثیت حاصل کر چکا ہے۔ یہ ہر استاد سنا چکا ہے اور ہر شاگرد سن چکا ہے۔ مگر ہمیشہ اس کے ایک ہی پہلو پر بات ہوئی ہے جبکہ اگر کسی بھی لطیفے کو پلٹا کردیکھا جائے تو اس میں سے ہمیں کچھ ایسا مواد بھی میسر آسکتا ہے جو کہ ہمیں زندگی گزارنے کا چلن سکھا سکتا ہے۔

اب جیسے اس شیخ چلی کے واقعہ کو ہی لے لیجیے کہ شیخ چلی کو کسی نے انڈوں بھرا ٹوکرا دیا، اور ایک اشرفی مزدوری کا وعدہ کیا۔ شیخ چلی ٹوکرا لے کر چل پڑا اور مستقبل کے خواب بننے لگا۔ ایک اشرفی لے کر میں انڈے لوں گا۔ ان انڈوں کو بیچ کر مرغی لونگا، مرغی کے انڈے بیچ کر پیسے جمع کروں گا اور بکری لوں گا، بکری کے بچے بیچ کر گائے لونگا اور اس کا دودھ بیچوں گا۔ میرے بچے دودھ مانگیں گے تو ان کو کٹورا بھر کر دودھ دوں گا۔ کٹورا دیتے ہوئے اس نے سر پر رکھا ٹوکرا چھوڑ دیا اور سارے انڈے ٹوٹ گئے۔ انڈوں کے ساتھ ہی اس کے خواب بھی چکنا چور ہو گئے۔

کہانی میں کئی نقاط ہیں پہلا یہ کہ شیخ چلی نے مستقبل کے خواب دیکھے اور اپنے حال کو بھلا دیا۔ دوسرا یہ کہ اپنے حال پر نظر نہ رکھنے کی وجہ سے اشرفی اور انڈوں دونوں سے ہاتھ دھو لیے، تیسرا یہ کہ اس کے بعد شاید اس نے کبھی نہ خواب دیکھنے کی ہمت کی اور نہ ہی ان خوابوں کی تعبیر کے لیے تگ و دو کی۔

جب بھی کسی سفر کا آغاز کیا جاتا ہے تو راستے اور منزل کا پروجیکٹ ذہن میں ضرور بنتا ہے۔ پھر اس پروجیکٹ پر عمل درآمد کرتے ہوئے راستے پر گامزن ہوا جاتا ہے اور راستے کے اختتام پر منزل آپ کا استقبال کرتی ہے۔ مگر اگر آپ پروجیکٹ ہی نہ بنائیں بلکہ بغیر سوچے سمجھے گھر سے نکل پڑیں تو آپ آوارہ گردی کرکے بدھوؤں کی طرح گھر لوٹ آئیں گے۔ جبکہ عزم کرنے کے بعد اگر راستے میں کسی وجہ سے مشکل آجائے، رکاوٹیں درپیش ہوں، کنٹینر لگے ہوں تو آپ گھبرا کر اپنی منزل کو تیاگ دیں اور پاؤں پسار لیں تو پھر آپ کی زندگی کسی چھوٹے تالاب کے مینڈک سے بھی بدتر گزرے گی۔

لہذہ میں سمجھتا ہوں کہ ہر انسان کو شیخ چلی ہونا چاہیے۔ وہ کسی چھوٹی سی اپرچیونٹی کو بھی اپنی منزل کی طرف شروعات سمجھے، اپنے راستے اور اپنی منزل کا بلیو پرنٹ اپنے ذہن میں تشکیل دے اور ساتھ ہی شیخ چلی کی غلطیوں سے احتراز کرے۔ اپنی منزل کو ذہن میں رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے حال کو بھی مد نظر رکھے کہ حال ہی مستقبل کی طرف اس کو لے کر جائیگا۔

ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اسکا انڈوں سے لدا ٹوکرا کسی وجہ سے گر جائے، انڈے ملیا میٹ ہو جائیں تو یہ حادثات بھی زندگی کے راستے کے سنگ میل ہیں۔ یہ ٹھوکریں ہی آپ کو راستے کی اونچ نیچ سے روشناس کرتی ہیں۔ لہذا اس ٹھوکر اور اس نقصان پر رونے کی بجائے پھر سے ٹوکرا اٹھاؤ اور اپنی منزل کی طرف چل دو۔ شیخ چلی کی حماقت خواب دیکھنا اور انڈے توڑنا نہیں تھی بلکہ اس کی بڑی غلطی اور حماقت یہ تھی کہ اس نے کہانی یہیں ختم کر دی۔ اس نے نہ تو دوبارہ انڈوں کا ٹوکرا اٹھایا اور نہ ہی اپنے ان خوابوں کا تعاقب کیا جن کو دیکھتے ہوئے اس نے ایک سبق سیکھا تھا۔ اس نے اس سیکھے ہوئے سبق سے فائدہ ہی نہیں اٹھایا اور کہانی کو ادھورا رہنے دیا۔ وگرنہ شاید آج اس کے انڈے توڑنے کی حماقت کی بجائے اس کی گائے اور بکری کے ریوڑ کی کہانیاں زبان زد عام ہوتیں۔

ایک اور لطیفہ عرض ہے کہ ایک شاگرد کو ہر مضمون میں گائے کے ذکر کرنے کی عادت تھی۔ اس کو استاد صدر مدرس کے پاس لے گیا اور شکایت کی۔ صدر مدرس نے شاگرد کو پیار سے بٹھایا اور کہا کہ بیٹا ذرا ریل گاڑی پر مضمون لکھنا۔ شاگرد نے لکھا کہ میں ریل گاڑی میں سفر کے لیے ریلوے سٹیشن پہنچا۔ ریل گاڑی میں بیٹھ کر میں روانہ ہوا۔ ریل کا سفر بہت خوشگوار تھا۔ میں نے کھڑکی میں سے باہر لہلہاتی ہوئی فصلوں کو دیکھا تو ایک گائے نظر آئی وہ بالکل میری گائے جیسی تھی۔ میری گائے سفید ہے، اس پر کالے دھبے ہیں۔ وہ بہت دودھ دیتی ہے۔ میں اس کو چارہ کھلاتا ہوں۔

صدر مدرس نے کہا بس بس اب تم ائیر پورٹ پرمضمون لکھ دو۔ اس نے لکھا کہ ائیر پورٹ پر ہوائی جہاز ہوتے ہیں۔ جن میں لوگ مختلف شہروں اور ملکوں کو جاتے ہیں۔ میں بھی ایک دفعہ ائیرپورٹ گیا وہاں سے مجھے کراچی جانا تھا۔ جب میں ائیر پورٹ پہنچا اور ٹکٹ لیا تو جہاز کے انتظار میں ائیرپورٹ میں بیٹھ گیا۔ کراچی جانے کے خیال سے میں اداس تھا کیونکہ مجھے میری گائے کی یاد آرہی تھی۔ میری گائے کارنگ سفید ہے۔ اس پر کالے دھبے ہیں۔ وہ بہت دودھ دیتی ہے اور میں اس کو چارہ کھلاتا ہوں۔۔

بس اس لطیفے کے کردار کی طرح آپ کہیں بھی جائیں، کوئی بھی امتحان در پیش ہو آپ کو اپنی گائے میرا مطلب ہے اپنا مقصد اور منزل یاد رہنی چاہیے۔۔

Check Also

Hatim Tai Se Umra Ul Qais Tak

By Muhammad Saqib