Saneha e Police Line Aur Hamara Social Media
سانحۂ پولیس لائن اور ہمارا سوشل میڈیا
پیر 30 جنوری کو پشاور ایک مرتبہ پھر ایک جانگسل سانحے کا شکار ہوا۔ جس نے ایک مرتبہ پھر صوبے کو غم و اندوہ میں ڈبو دیا۔ اس سانحے پر جتنا دکھ اور درد محسوس کیا جائے وہ کم ہے۔ کئی گودیں اجڑ گئیں، کئی بچوں کے سر سے والدین کا سایہ چھن گیا۔ کئی خواتین اپنے جیون ساتھیوں سے محروم ہوگئیں۔
اس اندوہناک سانحے سے جہاں عوام میں دھشت اور بے چینی پھیل گئی۔ وہاں خیبر پختونخوا کی پولیس فورس بھی فرط جذبات سے اپنے حواس کھو بیٹھی۔ اور ایک حفاظتی فورس ہوتے ہوئے اپنے لیے حفاظت کا مطالبہ کرنے لگی اسطرح اپنی وردی اور اپنے سینیرز کے لیے شرمندگی کا باعث بنی۔
ایسے سانحات میں یہ سب شاید فطری ہو مگر جذبات کے رو میں بہہ کر جیسی نعرے بازی سوشل میڈیا پر اور سوشل میڈیا سے متاثر ہو کر بر سر میدان کی گئی اس نے ہماری عقل، منطق اور سمجھ بوجھ کا بھرم توڑ دیا۔ ہم لاکھ دفعہ دنیا کے باسیوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ ہم پاکستانی ایک باشعور قوم ہیں ہم اپنا برا بھلا خوب سمجھتے ہیں۔ ہم کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیت سے مالا مال ہیں۔ مگر ایک ہی جھٹکے نے ہمارے ان دعووں کو خاک میں ملا دیا۔
سوشل میڈیا اس دور میں سب سے طاقتور میڈیم کے طور پر ابھرا ہے اور قوموں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کرتا چلا جا رہا ہے مگر ہمارے سوشل میڈیا کے استعمال کنندہ کتنے باصلاحیت، سنجیدہ اور سمجھ بوجھ کے مالک ہیں۔ وہ اس سانحے نے بہت وضاحت سے دکھا دیا۔ ایسی پوسٹیں نظر سے گزریں کہ کبھی تصور بھی نہ کیا تھا کہ ہماری قوم کے یہ سپوت ایسے مخبوط الحواس بھی ہوسکتے ہیں۔
کسی بھی پوسٹ کو بغیر جانے بغیر تحقیق کے کاپی پیسٹ کرتے رہنا ان کا ہمیشہ سے ہی مشغلہ رہا ہے مگر اس حادثے کے فورا بعد جس طرح کاپی پیسٹ کا طومار باندھا گیا اس کی مثال شاید کسی اور ملک کی سوشل میڈیا پر نہ مل سکے۔ ابھی دھماکے کی آواز کی گونج ختم نہ ہوئی تھی، زخمیوں اور شہدا کو ہسپتال پہنچایا نہیں گیا تھا، کہ ایک جعلی انقلابی تحریک کا آغاز کر دیا گیا اور ملک کی سلامتی کے خلاف ایسے نعرے لگائے گئے کہ تصور کر کے بھی خون کھول اٹھتا ہے۔
کیا ایسا ہوتا ہے زندہ، بیدار اور منطقی قوموں کا رد عمل۔ کیا اس طرح سے سانحات اور حادثات کا مقابلہ کیا جاتا ہے۔ پہلے دیکھو تو سہی کہ ہوا کیا ہے۔ دھماکے یا حادثے کی دھول چھٹنے تو دو۔ پھر دیکھو کہ کس طرح ہوا ہے۔ کس نے کیا ہے۔ اس تباہی کا مقصد آخر کیا ہے۔ کہیں وہ مقصد اس طرح غیر ذمہ دارانہ ردعمل سے پورا تو نہیں ہورہا۔ سوال کرو ضرور کرو مگر اپنے ذھن سے اپنی مرضی کے جواب تراشنا کہاں کی عقلمندی ہے۔
غیر منطقی نتائج برآمد کرکے ان پر بھونڈا رد عمل دینا کونسا انقلاب ہے۔ یہ صرف اور صرف ایک نفسیاتی عارضہ ہے جو ہماری قوم کو لاحق ہو چکا ہے۔ کہ خود سوچو، خود ہی سوال کرو، خود ہی جواب دو اور پھر اسی جواب پر رائے قائم کر کے محاذ بنا لو۔ اب جبکہ بہت کچھ واضح ہو چکا ہے اور آئی جی پولیس تفصیلی طور پر ابتدائی تحقیقات سامنے لے آئے ہیں تو ان نالائق انقلابیوں کی عقل ٹھکانے آئی ہوگی۔ اگر نہیں آئی تو پھر اللہ ہی ہدایت دینے والا ہے۔
میں اکثر اپنے ان سوشل میڈیا کے سورماؤں سے دست بستہ عرض کرتا رہتا ہوں کہ کم از کم اتنے عقل کے ناخن لے لو کہ یہ سوشل میڈیا ہے۔ یہاں کب کس نے کیا کہا اور کس مقصد سے کہا اس پر تو غور کرلو۔ کاپی پیسٹ کرکےکہیں تم کسی بدنیت دشمن کے پروپیگنڈا مہم کا حصہ تو نہیں بن رہے۔ کسی کے مذموم مقاصد میں نا دانستہ اس کا ساتھ تو نہیں دے رہے۔ کسی سیاسی پارٹی کے خود غرضانہ سیاسی ایجنڈے کی تشہیر کا باعث تو نہیں بن رہے۔
دشمن ہمیشہ ہم خیال اور ہمدرد بن کر ہی نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ کر اعتماد جیتنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور جب آنکھوں پر اعتماد اور ہمدردی کی پٹی باندھ دیتا ہے تو پھر تمہارے ہاتھ تمہارے اپنوں کے گریبان پر ڈال دیتا ہے۔ لہذہ سوشل میڈیا کو استعمال کریں مگر عقلمندی سے۔ ہر پوسٹ اخلاص کے تحت نہیں ہوتی بلکہ تخریبی عزائم بھی لیے ہوئے ہوسکتی ہے۔ ان عزائم کو سمجھنے اور ان سے بچ کر چلنے میں ہی ہماری، ہمارے دین، ہمارے ملک اور ہمارے قوم کی بھلائی ہے۔
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا