Pakay Hue Phal Ya Pakay Hue Log
پکے ہوئے پھل یا پکے ہوئے لوگ
گرمیوں کے گرم دن ہیں۔ سورج کی تابناک شعاعوں اور ساون کی حبس نے درختوں میں پھلوں کو پکا دیا ہے۔ اب پھل بس اشارہ پا کر ٹہنی سے ٹوٹ کر ہاتھ میں آجاتا ہے، اور اگر توڑنے والا نہ ہو تو خود ہی گر کر خاک میں مل جاتا ہے۔
پکے ہوئے پھل کی ٹہنی سے الگ ہونےکی اس بے تابی نے اچانک ذہن میں ایسے حادثے کو تازہ کر دیا جو ماضی کے مطالعے اور حال کے مشاہدے میں بار بار ہمارے سامنے آتا ہے اور وہ حادثہ ہے لوگوں کے پکنے کا۔۔
کسی پھل کی طرح جب لوگ بھی رویوں کی شدت، ظلم کی حدت اور حبس زدہ نظام سے پک جاتے ہیں تو وہ بھی بس اشارے کے منتظر ہوتے ہیں اور کسی بھی جھولی میں گرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں اور اگر وہ اشارہ نہ ملے تو خود ہی بلا کسی مقصد و منزل ٹہنی سے ٹوٹ کر زمین بوس ہو جاتے ہیں۔ بقول غالب
پر ہوں شکوے سے میں یوں، راگ سے جیسے باجہ
اک ذرا چھیڑیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے
اگر ماضی بعید یا قریب میں یا پھر موجودہ دور میں اپنے اردگرد ملکوں، شہروں، محلّوں، خاندانوں میں نظر دوڑائیں تو کئی پکاؤ نظام، حکومتیں، ہمسائے، رشتہ دار اور اس کے نتیجے میں پکے ہوئے لوگ، بلوے، مظاہرین اور باغی نظر آ جائیں گے۔
ہمارے وطن عزیز پاکستان میں یہ پکنے پکانے کا طویل سلسلہ ہمیشہ سے جاری ہے۔ ماضی کے واقعات کا کیا ذکر ابھی موجودہ حالت میں جو ہمارے ہم وطن بات بات پر ہتھے سے اُکڑ کر گلیوں میں آتے ہیں، بلوے کرتے ہیں۔ ڈنکی کےذریعے ملک چھوڑتے ہوئے خود کو سمندر کے حوالے کر رہے ہیں، یا پھر سفارتخانوں کے آگے 10-10 گھنٹے اپنی قسمت کے فیصلے کے لیے قطار میں کھڑے ہیں۔۔ یہ بھی ملک کے نظام اور گورننس سے پکی ہوئی نوجوان نسل ہے۔ بس اہل اقتدار ان کے پکنے کا ادراک نہیں کر پا رہے۔
نون لیگ اور پیپلز پارٹی جیسی سیاسی پارٹیاں ووٹرز سے شکوہ کناں ہیں کہ وہ ان کی ملک اور جمہوریت کے لیے خدمات کو فراموش کر بیٹھے ہیں اور بقول ان کے تحریک انصاف کو بلا کسی نمایاں کارکردگی کے منتخب کر رہے ہیں تو یہ پرانے اور تجربہ کار سیاستدان بھی دراصل اس پکنے اور پکانے کی حقیقت سے چشم پوشی کر رہے ہیں اور یہ سمجھ نہیں پا رہے کہ ان کی پالیسیز، منصوبوں اور طریقہ سیاست سے لوگ پک چکے ہیں۔ یہ پکے ہوئے لوگ کسی جھولی کے انتظار میں ہیں۔۔ جبکہ جمہوری نظام میں یہ لوگ کسی سیاسی متبادل کی جھولی میں گریں تو شکر بجا لائیں۔۔ وگرنہ اگر یہ پکے ہوئے لوگ تنگ آکر ٹہنیوں سے زمین پر گرنے لگے تو خود کے ساتھ آپ کو بھی ملیا میٹ کر دیں گے۔
اس پکنے پکانے کا سلسلہ ہی ہے کہ بنگلہ دیش میں دو ھفتے قبل شروع ہوا احتجاج سول نافرمانی میں تبدیل ہونے کے نتیجے میں وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت کی نیا ڈوب گئی ہے۔۔ ان کو استعفی دے کر عجلت میں بنگلہ دیش سے جانا پڑا۔۔ بنگلہ دیش کے عوام ان کے پندرہ سالہ سول مارشل لاء اور زبردستی مسلط کیے گئے یک جماعتی نظام سے پک چکے تھے تب نوکریوں کے مخصوص کوٹے نے اس اشارے کا کام کیا جو کہ ٹہنی پر پکے ہوئے پھل یا کسی نظام سے پکے ہوئے انسان کو چاہیے ہوتا ہے۔
بنگلہ دیش ابھی ہمارے لیے تازہ بہ تازہ مثال ہے مگر ماضی قریب میں عرب سپرنگ اس پکنے اور پکانے کے عمل کی ایک اور چشم کشا مثال ہے کہ جس میں لوگ بغیر کسی نمایاں قیادت کے نکلے اور حکومت، نظام اور شہریت کو بہا کر لے گئے، انجام جو بھی ہوا وہ ہوا، یہ الگ بحث ہے۔ مگر پکے ہوئے لوگوں کو اس سے کیا سروکار کہ گرنے کے بعد کیا ہوگا۔۔ وہ تو پک چکے ہوتے ہیں اور بس۔۔
لیبیا کے جناب قذافی کے المناک قتل پر کئی یار دوستوں نے لیبیا کے باشندوں کی کوتاہ فہمی، اور احسان فراموشی پر نفرین کی تو میں نے ان سے عرض کیا کہ قذافی کا انداز حکومت اور گورننس اپنی جگہ مگر دراصل عوام اس کی طویل حکومت سے پک چکے تھے اور وہ یہ ادراک نہیں کر سکا کہ لوگوں کو پکانا نہیں ہے بلکہ ان کو ایسا نظام دینا ہے۔ جیسے بہتا دریا جس میں لہریں بدل بدل کر آئیں اور پانی تازہ رہے نہ کہ ایسا پر تعیش حوض جس میں ایک دفعہ پانی ڈال دیا گیا تو پھر وہ کتنا ہی کائی زدہ اور بد بودار کیوں نہ ہو جائے اسی پانی کو حیات بخش اور مقدس قرار دیا جائے۔
جس طرح سمندر کو اپنی تازگی برقرار رکھنے اور اپنے ساتھ وابستہ مخلوق کی بقا کے لیے جوار بھاٹا کے عمل کو جاری رکھنا پڑتا ہے، یا دریا کو اپنی روانی برقرار رکھنے کے لیے گلیشیرز، پہاڑوں اور ندی نالوں سے پانی لینا پڑتا ہے ایسے ہی ہر نظام چاہے خاندانی ہو یا حکومتی، ادارے ہوں یا معاشرے سب کو اپنی بقا کے لیے تبدیلی کا عمل جاری رکھنا ضروری ہوتا ہے اور یہی ایک طریقہ ہے کسی نظام میں رہنے والے لوگوں کو پکنے سے بچانے کا۔۔ وگرنہ پکے ہوئے پھل اور پکے ہوئے لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ وہ کس جھولی میں گر رہے ہیں یا پھر گرنے کے بعد جھولی بھی نصیب ہوگی یا نہیں۔۔