1.  Home
  2. Blog
  3. Taseer Zaman
  4. Hum Rahe Raheen e Sitam Haye Barqiyat

Hum Rahe Raheen e Sitam Haye Barqiyat

ہم رہے رہین ستم ہائے برقیات

ہمارا وطن یوں تو بحرانوں میں ہمیشہ سے خود کفیل رہا ہے اور ہر طرح کا آزار اس پر مسلط ہے مگر بجلی کا بحران ایک ایسی بلائے بے درمان ہے کہ غالب کا مصرعہ "لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے" اسی پر صادق آتا ہے۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے اس بحران کو پلتے بڑھتے اور مضبوط ہوتے ہی دیکھا ہے۔۔ مگر یہ بحران ہے کیا، کیا یہ کوئی درد لادوا ہے یا پھر نالائقی اور لاپرواہی کا شاخسانہ ہے اس پر ایک طائرانہ نظر ڈال لیتے ہیں۔

ملک میں بجلی پیدا کرنے کی ذمہ داری واپڈہ کے ذمے ہے جبکہ اس کی تقسیم و ترسیل کی ذمہ داری تقسیم کار کمپنیز یعنی DISCOs کے ذمہ ہے۔ اس وقت ملک میں مختلف ذرائع سے بجلی کی پیداواری صلاحیت تقریبا 43775 میگا واٹ ہے جبکہ شدید طلب کے دنوں میں ملک میں 31000 میگا واٹ بجلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی اپنی شدید ضرورت سے بھی 11775 میگا واٹ زیادہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہوتے ہوئے ہم اکثر بد ترین لوڈ شیڈنگ کا شکار رہتے ہیں۔

اب آئیے اس لوڈشیڈنگ کی ایک بڑی وجہ جانتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ہماری بجلی کی ترسیل کی صلاحیت فقط 22000 میگا واٹ ہے اور اس ترسیل میں بھی 17 فیصد بجلی لائن لاسز کی نظر ہو جاتی ہے یعنی 100 میگاواٹ میں سے 17 میگا واٹ استعمال سے پہلے ہی راستے میں ضائع ہو جاتی ہے۔ یہ 17 فیصد ضائع شدہ بجلی تقریبا 3740 میگا واٹ بنتی ہے۔ جو کہ تربیلا ڈیم کی پیداواری صلاحیت سے زیادہ ہے جوکہ 3470 میگا واٹ بجلی پیدا کرتا ہے اور منگلا ڈیم کی پیداواری صلاحیت 1070میگا واٹ سے 2670 میگا واٹ زیادہ ہے۔

22000 قابل ترسیل بجلی میں سے صارفین تک 18260 میگاواٹ پہنچ پاتی ہے یعنی ہم اتنی بڑی مقدار میں بجلی ہوا میں اڑا دیتے ہیں۔ اب اس مضحکہ خیز صورت حال کا ایک اور پہلو ملاحظہ فرمائیں کہ نیپرا کی طرف سے 13 فیصد بجلی کے ضیاع کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر من و عن قبول کیا گیا ہے جبکہ اس پر 4 فیصد مزید بھی ضائع ہو جاتی ہے۔

اس غضب کہانی کا دوسرا پہلو اخراجات ہیں۔ لائن لاسز سے 2023 میں 533.52 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے جس میں سے 353.52 ارب روپے صارفین سے وصول کیے گئے جبکہ 160 ارب روپے گردشی قرضے میں شامل کر دیے گئے اور اسی طرح ہر سال 13 فیصد (نیپرا کی مجاز) ضائع شدہ بجلی کی قیمت صارفین پر ڈالی جاتی ہے جبکہ اضافی 4 فیصد کو گردشی قرضے میں شامل کر دیا جاتا ہے۔

اس ناقص اور کمزور ترسیلی نظام کے ہوتے ہوئے اگر آپ سارے ملک کو ڈیم بنا دیں یا سارے سمندر میں بجلی کی پون چکیاں لگا دیں یا پھر سارے صحرائے تھر کو شمسی بجلی کی پیداوار کے لیے وقف کردیں تب بھی پاکستان کے عوام، زراعت اور انڈسٹری کے نصیب میں اندھیرے ہی ہونگے۔ اتنی زیادہ مقدار میں بجلی پیدا ہونے بھی لگے تو اس کو صارفین تک کیسے پہنچایا جائے گا اسی گھسے پٹے ترسیلی نظام کے ذریعے جو اتنی بڑی مقدار میں ترسیل کی سکت ہی نہیں رکھتا اور ساتھ ساتھ 17 فیصد ضائع بھی کر دیتا ہے۔

پچھلی چھ دہائیوں میں کیا پاکستان کے حکمران اور افسر شاہی سو رہی تھی۔ اربوں ڈالر قرض لیا جا چکا ہے کیا اس میں اس ترسیلی نظام کی استعداد بڑھائی نہیں جا سکتی تھی۔ اور کیا اس فرسودہ نظام کو بتدریج بدلا نہیں جا سکتا تھا۔ اگر بہ نظر غائر دیکھا جائے تو ملک میں کوئی مادّی بحران نہیں ہے بلکہ اخلاص اور نیک نیتی کا بحران ہے۔ ذہانت اور لیاقت کا بحران ہے۔ سچائی اور استقامت کا بحران ہے جو ہمیں اس منجدھار سے نکلنے نہیں دیتا۔

ہمارے سیاستدانوں نے اپنے اپنے دور حکمرانی میں الیکشن سے الیکشن تک کا وقت گزارا اور اپوزیشن میں آکر اپنی کوتاہیاں دوسروں پر ڈال دیں۔ ہمارے بیورو کریٹس ہمیشہ اپنی کرسی اور نوکری بچانے کی فکر میں لگے رہے۔ اپنے مراعات بڑھانے کے حیلے ڈھونڈتے اور ذاتی مفاد کے لیے ملک کے مفاد کو پس پشت ڈالتے رہے۔

یہی ہمارے ہر بحران کی کہانی ہے اور یہی ہماری ہر بدنصیبی کی داستان ہے۔ جھوٹ فریب اور وقت گزاری کا پہیہ یونہی گھوم رہا ہے اور ملک کی خوشحالی اور ترقی کے ساتھ ساتھ عوام کی امیدوں اور امنگوں کو بھی کچلتا جا رہا ہے۔

Check Also

Cyber Crime Ka Naya Idara Kya Naya Hoga?

By Raza Ali Khan