Hakumat Kis Intezar Mein Hai?
حکومت کس انتظار میں ہے؟
پاکستان کے سیاسی اور معاشی حالات مسلسل بد سے بد تر ہو رہے ہیں۔ حکومت روزانہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہونے کی خبر دیتی ہے اور عوام نئے ولولے سے امیدیں باندھ لیتی ہے۔ اور یہ سمجھتی ہے کہ شاید یہ معاہدہ ان کے سارے دکھ درد دور کر دے گا اور پاکستان کو ایشیا کا ٹائیگر بنا دے گا۔ دوسری طرف سیاسی حالات ہیں کہ کسی بھی طرف سے امید کی کوئی کرن نظر نہیں آ رہی۔ اس وقت وفاقی حکومت اپنی من مانی کرتے ہوئے آئین تک کو خاطر میں نہیں لا رہی۔ سیاسی من مانی کا یہ حال ہے کہ 90 دن کے لیے لائی گئی نگران حکومت بھی خود کو مستقل بندوبست ہی خیال کر رہی ہے اور اپنی مدت حکومت بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
حالانکہ آئین اس معاملے میں واضح ہے۔ اگر سیاستدان پارلیمنٹ میں رہ کر آئین کی دھجیاں بکھیرنے پر تل جائیں تو پھر کسی اور سے گلہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟ جب آئین کے ساتھ یہ کھلواڑ ہو رہا ہو۔ عدالت کو مجبوراََ آئین کی ایک واضح شق کی وضاحت کرنی پڑے اور حکومت سے زبردستی آئین پر عمل درآمد کروانا پڑے تو سیاسی عدم استحکام اور ابتری کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے؟
ان سب معاملات کو سامنے رکھیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس افراتفری سے حکومت آخر حاصل کیا کرنا چاہتی ہے؟ اور الیکشنز کو کس امید میں ٹال رہی ہے؟ ان سوالات کا جواب تو یہی بنتا ہے کہ دراصل موجودہ حکومتی اتحاد اور ان کے معاشی ماہر اسحاق ڈار اب بھی ماضی میں جی رہے ہیں اور ماضی کی طرح اب بھی اس انتظار میں ہیں کہ ایک دفعہ آئی ایم ایف سے معاہدہ طے پا جائے اور دیگر قرض دینے والے ادارے بھی ڈالرز دے دیں تو یہ ایک مرتبہ پھر شد ومد سے جعلی ترقی و معاشی خوشحالی کا پروپیگنڈہ شروع کر دیں گے۔
ڈالر کو دوبارہ مصنوعی طور پر نیچے لایا جائے گا۔ سبسڈیز کی گنگا بہائی جائے گی اور کسی نہ کسی طرح اشیاء کو سستا کر دیا جائے گا۔ اس طرح عوام میں ایک تاثر بن جائے گا کہ پی ڈی ایم حکومت نے معاشی کامیابی حاصل کر لی ہے۔ پاکستان کی مشکلات ختم ہو چکی ہیں۔ اب راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے۔ پاکستان نے کشکول توڑ دیا ہے۔ آئی ایم ایف سے نجات حاصل کر لی گئی ہے۔ عوام اور خاص طور پر پی ڈی ایم کے حامی حکومت کی اس کارکردگی پر پھولے نہیں سمائیں گے اور تب حکومت الیکشن کا اعلان کر دے گی کہ اب میدان تیار ہے۔
عوام کی آنکھوں میں اسحاقی سرمہ لگا دیا گیا ہے ان کو اب ہر طرف ترقی اور خوشحالی نظر آنے لگی ہے۔ حقیقت کون دیکھے گا، کیا پہلے کبھی کسی نے دیکھی ہے۔ یہ کرشمہ کیسے ہوا کون پوچھے گا؟ پوچھنے والا ملک اور عوام دشمن کہلائے گا۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر مجھے کوئی بتائے کہ 4 مہینوں میں یا پھر سال دو سال میں (جیسا کہ مبینہ طور پر حکومت کا دورانیہ بڑھانے کے بارے میں خدشات ہیں) کونسا ایسا کرشمہ ہوگا جو پی ڈی ایم کو عوام میں مقبول و معتبر کر دے گا۔
پاکستانی سیاستدانوں کا یہی ٹریک ریکارڈ رہا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ عوام کو دھوکے میں رکھ کر ان کو مصنوعی مسرتیں دی ہیں۔ تاکہ ان کی سیاسی دکان چلتی رہے، ووٹ پڑتے رہیں اور وہ اس ملک کی رگوں سے خون نچوڑتے رہیں۔ کبھی بھی ان سیاستدانوں نے ملک کی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی کیونکہ یہ ایک غیر مقبول، دقت طلب اور لمبا راستہ ہے جس پر چلتے ہوئے پاؤں میں چھالے پڑتے ہیں اور انگلیاں فگار ہوتی ہیں۔
ہمارے ناز و نعم میں پلے، چور راستوں اور پیراشوٹ سے آئے سیاستدانوں میں کبھی بھی اتنی ہمت اور حوصلہ نہیں دیکھا گیا کہ وہ ملک کی زمینی حقیقتوں کا خود بھی سامنا کریں اور عوام کو بھی اس سے آگاہ کریں۔ یہ سب قربانیوں کی باتیں، سادگی کے بیانات، بچت کی تجاویز وقتی ڈھکوسلے ہیں۔ ایک مرتبہ ان بین الاقوامی اداروں کو ان کی چاپلوسی کے شیشے میں اترنے دیں، پھر دیکھیں کہ یہ پرانے گرگٹ کیسے رنگ بدلتے ہیں اور کیسے خود بھی عیاشی کی گنگا میں اشنان کرتے ہیں اور اس بہتی گنگا میں عوام کے بھی ہاتھ دھلواتے ہیں۔
عوام کا تو ویسے بھی نعرہ ہے کہ کھاتا ہے تو کھلاتا بھی تو ہے۔