Aeen o Qanoon Ke Qatil Maseeha
آئین و قانون کے قاتل مسیحا
پاکستان کی سیاست یوں تو 75 سال سے ہی بازیچۂ اطفال کا جیتا جاگتا نمونہ رہی ہے مگر پچھلے ایک مہینے سے جو ڈرامہ چل رہا ہے اس کی مثال ہماری 75 سالہ تاریخ میں موجود نہیں ہے۔ یہ بدقسمتی کی انتہاء ہے کہ ایک ایسا اتحاد جو کہ خود کو آئین، سیاست اور جمہوریت کا علمبردار کہتا رہا ہے اور اب بھی سمجھتا ہے وہ آئین کو پس پشت ڈال کر ملک میں صرف اور صرف اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتا ہے۔
یہ وہی اتحادی ہیں جو زیادہ نہیں صرف ایک سال پہلے آئینی جمہوری عمل، عدم اعتماد کے ذریعے برسر اقتدار آئے اور یہ وہی ہیں جو اس وقت سابقہ حکومت کے عدم اعتماد کے خلاف غیر آئینی اقدامات اور حیلوں کے خلاف سراپاء احتجاج تھے اور اب یہ وہی عدالت ہے وہی چیف جسٹس ہیں اور وہی سوموٹو اختیار ہے جس کے ذریعے اس موجودہ اتحادی حکومت کے عدم اعتماد پر عمل درآمد کرایا گیا تو ان کو یہ حکومت نصیب ہوئی۔
اس وقت یہ سپریم کورٹ اور چیف جسٹس ان کی آنکھ کا تارہ اور انصاف کے سرخیل تھے۔ جبکہ عمران خان اور ان کے ہمراہیوں کے لیے یہ لا قانونیت اور جانبداری کا استعارہ تھے۔۔ آج کردار بدل گئے ہیں وہی چیف جسٹس عمران اور ان کے حامیوں کے لیےآئین، قانون اور انصاف کے محافظ اور پی ڈی ایم کے لیے جبر کی علامت اور قانون کے قاتل ہیں۔۔
یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں
معلوم نہیں کہ پی ڈی ایم جو کہ بار بار قوم پر ریاست کے لیے اپنی سیاست کو تباہ کرنے کا احسان جتا رہی ہے اتنی ہی سادہ ہے یا پھر آنکھوں میں جوتوں سمیت گھسنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کیا ان کے حامیوں کے علاوہ باقی پاکستانی بھی اتنے ہی کور چشم ہیں کہ ان کی نیت اور ارادوں کو نہیں دیکھ سکتے کہ یہ صرف اور صرف اپنی شکست سے بچنے کے لیے پاکستان کے آئین کو داؤ پر لگانے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ اپنی ناجائز خواہشات کے آڑے آنے پر ملک کی عدلیہ اور قانون کو کمزور کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔
اتنے منجھے ہوئے اور پاکستان کی سیاست کے سرد و گرم چشیدہ سیاستدان اس قدر خود غرض اور پاگل ہو چکے ہیں کہ خود اپنے ہی ہاتھ سے اپنے اس آئین کو پرزے کرنا چاہتے ہیں جو بہت منتوں مرادوں کے بعد وجود میں آیا اور جو ہمیشہ ان کی جمہوریت، اور حقوق کے لیے سینہ سپر رہتا ہے۔ جس نے کتنی مرتبہ ان کی در بدری میں ان کا ساتھ دیا اور ان کو ہر بار اقتدار کی مسند پر بٹھایا جو عوام اور ریاست کے درمیان ایک رابطہ ہے اور عوام اسی کے دیے ہوئے نظام حکومت اور حقوق انسانی کے ذریعے ریاست کو اپنے لیے ایک جائے پناہ مانتے ہیں اور انہی حقوق کی وجہ سے اس ریاست کی حفاظت کو اپنا فرض جانتے ہیں۔
اگر یہ آئین نہ رہا، اگر آج اس کی کسی شق کو صرف اور صرف اپنی بے جا خواہش کے بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ تو پھر کل کو اس کی کسی بھی شق کو کوئی بھی غیر جمہوری طاقت، کوئی بھی سیاسی جماعت درخور اعتنا نہیں جانے گی اور ایسا کرنے کے لیے ان کے پاس ایک ٹھوس دلیل موجود ہوگی۔ اور کیا آئین کی اس بے آبروئی کے بعد عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب نہیں ہوگی کہ ان کے لیے آئین میں دیے گئے حقوق کسی بھی وقت کوئی بھی حکومت یا طاقتور ادارہ غصب کر سکتا ہے۔ اور کسی بھی وقت ان سے شہری کی حیثیت چھین کر ان کو غلام بنایا جا سکتا ہے۔
کیا خود کوئی بھی دانا و بینا انسان اپنے گھر کی چاردیواری گرا کر اپنے اور پرائے لوگوں کو اپنے صحن میں سے رستے نکالنے کی اجازت دے سکتا ہے۔ نہیں نہ، تو پھر ہماری حکومت اور اس میں موجود تجربہ کار لوگوں کو کیا ہوگیا ہے۔ وہ فقط اپنے ایک سیاسی مخالف کو کچلنے اور سیاست سے باہر رکھنے کے لیے اپنی پناہ گاہ کو آگ لگانے میں لگے ہیں مگر یہ بھول رہے ہیں کہ یہی پناہ گاہ ہے جو ان کو بھی ہمیشہ سخت موسموں میں بچاتی آئی ہے۔
اگر آج اس قلعے کی بنیادوں کو کمزور کیا گیا تو آنے والے وقت میں یہ نہ تو ان سیاستدانوں کو اور نہ ہی اس ملک کے عوام کو تحفظ دے سکے گا۔ عوام جو پہلے ہی آئین و قانون کے عملی نفاذ نہ ہونے کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہیں۔ اس معاہدے کی معدومیت کے بعد بغیر دیواروں اور چھت کے کھلے میدان کو گھر کیسے کہہ سکیں گے۔ دوسری طرف اس آئین یا معاہدے کو تحفظ دینے کا ایک ہی ادارہ نظر آتا ہے جس نے کئی دفعہ اس معاہدے کو تحفظ فراہم کیا ہے اور کئی مرتبہ اس کے خلاف ہوئے دانستہ یا نا دانستہ اقدامات کا راستہ روکا ہے۔
اگر آج یہ سیاستدان صرف اپنے ذاتی عناد کی وجہ سے اس کو بے توقیر کر دیں گے تو پھر آئین اور اس میں کیے گئے وعدوں کو تحفظ کون دے گا۔ اس پر حملہ آور کسی بھی طاقت کو روکنے والا ہاتھ کس کا ہوگا۔ اس وقت صرف اور صرف عدلیہ کی طرف ہی نگاہیں اٹھیں گی مگر کیا آج کی بے جا طعن و تشنیع سے مجروح عدلیہ میں اس وقت اتنی سکت ہوگی کہ وہ اس کی طرف بڑھنے والے طوفان کا راستہ روک سکے۔
سعد رفیق کہتے ہیں کہ "ہم نے عدلیہ بحالی کے لیے جو کوشش کی اس پر ہم نادم ہیں"۔ جی ضرور ہوں گے کیونکہ آج عدلیہ اسی اعتماد کی وجہ سے ہی آپ کی ناجائز توسیع پسندانہ اور مجرمانہ خواہشات کے آگے کھڑی ہے۔ آپ آج نادم ہیں مگر یہ بتائیں کیا وہی عدلیہ بحالی تحریک اس وقت جمہوریت کی بحالی کا باعث نہیں بنی تھی۔ کیا افتخار چوہدری اور عدلیہ کی عزیمت کی وجہ سے ہی مشرف کے مارشل لا کو پسپا نہیں ہونا پڑا تھا اور کیا عدلیہ کے اسی انکار اور اسی تحریک نے نظریۂ ضرورت کے تابوت میں کیل نہیں ٹھونکی تھی۔ کیا اسی جرات رندانہ نے ججوں کے دلوں سے طاقتوروں کا خوف نہیں نکالا۔
جی ہاں بالکل وہی انکار، وہی جرات اور وہی تحریک تھی جس کی وجہ سے آج پاکستان میں چوتھی مرتبہ مسلسل انتخابات کی تیاری ہو رہی ہے۔ مگر آپ جیسے سیاستدان جو جمہوریت، آئین اور عدلیہ کے لیے مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں، اپنی غرض کے لیے لمحہ بہ لمحہ صورتحال کو دیکھتے ہیں۔ اس وقت عدلیہ بحالی آپ کے حق میں تھی تو اٹھ کھڑے ہوئے عوام کو بھی سڑکوں پر نکلنے کی ترغیب دی اب عدلیہ کی خود مختاری آپ کو چبھ رہی ہے تو ماضی کی عدلیہ بحالی تحریک ایک غلطی لگ رہی ہے اور حالیہ عدلیہ ملک دشمن۔
آج آپ پارلیمنٹ میں بیٹھ کر جو کچھ اپنے وقتی مفاد کے لیے کر رہے ہیں۔ وہ سب کے سامنے ہے۔ الیکشن میں آپ کو اپنا نقصان نظر آ رہا ہے تو آئین شکنی بھی جائز اور عدلیہ کو طعن و تشنیع کرکے پسپا کرنے کی کوشش بھی جائز۔ اور ہو سکتا ہے کہ پھر کچھ عرصے بعد جب مکافات عمل ہوگا تو اپنی اس غلطی پر بھی نادم ہو جائیں مگر اس وقت آئین اور قانون کے ساتھ ساتھ پاکستان بہت کچھ کھو چکا ہوگا۔ آپ کی ندامت اس وقت کسی کام نہیں آسکے گی۔ اس وقت آئین بزبان حال پکارے گا۔
بعد مرنے کے میری قبر پہ آیا وہ میر
یاد آئی میرے عیسی کو دوا میرے بعد