Tuesday, 07 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Taimoor Khattak/
  4. Teen Tareekhi Khat

Teen Tareekhi Khat

تاریخی تین خط

پاکستان میں ایسا کوئی دن نہیں آیا جس سے ملک میں امن و سکون پایا گیا ہوں ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی نیا کٹا کھلا ہوتا ہے ابھی ایک کیس بند ہوا نہیں ہوتا کہ دوسرا کھیل شروع ہوجاتا ہے یوں پاکستان بننے کے بعد بھی عوام نے حکمرانوں کی طرف سے کبھی سکھ کا سانس نہیں لیا۔ عمران خان کی حکومت کے بعد اب تک ڈالر 42 روپے اور کچھ پیسے کا ہوگیا ہوا ہے مہنگائی کی شرح دن بدن بڑھتی جا رہی ہے رواں ہفتے میں ادارے شماریات کے مطابق 31 اشیاء مہنگی ہوئی ہے اور صرف کچھ چیزیں سستی ہوئی، اس کے باوجود ہمارے موجودہ حکمران اپنی ذاتی لڑائیوں میں پڑے ہوئے ہیں کسی کو فکر نہیں کہ معیشت کا بیڑہ غرق ہو رہا ہے معیشت گرتی جارہی ہے۔

بلومبرگ، اکانومسٹ کے مطابق پاکستان ان ممالک کی فہرست میں ہے جو روس اور یوکرین کی جنگ سے متاثر ہوگا اس ساری صورتحال میں مجال ہے کہ ہمارا کوئی حکمران اس کا نوٹس لیں اور عوام کے لیے کوئی مثبت کردار ادا کرے۔ ایک تو پاکستان کی سیاست میں خطوط کا بہت اہم کردار رہا ہے جب بھی کوئی سیاسی معاملہ پیش آتا ہے کہیں نہ کہیں سے کوئی خط آتا اور پھر پورے کا پورا سیاق وسباق ہی تبدیل ہوجاتا ہے۔

ماضی میں جب سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو نااہل کیا گیا تو ان کے بیٹوں کی طرف سے عدالت میں پیش کیے گئے وہ قطری شہزادے کے خطوط جس میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف کے والد میاں شریف نے سنہ 1980 میں قطر میں ایک کروڑ بیس لاکھ قطری ریال کی سرمایہ کاری کی تھی۔ قطری شہزادے نے اس خط میں یہ بھی کہا ہے کہ اُن کے ذمے میاں شریف کے 80 لاکھ امریکی ڈالر واجب الادا تھے جو سنہ 2005 میں نیلسن اور نیکسول کمپنیوں میں شیئر کی صورت میں ادا کیے گئے۔

خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ان کمپنیوں کے بیئرنگ سرٹیفکیٹس کی ادائیگی لندن کی ایک کاروباری شخصیت وقار احمد کے ذریعے کی گئی۔ خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ الثانی خاندان کا ایک نمائندہ جدہ میں شریف فیملی سے ملا تھا اور لندن میں انٹربینک ریٹ پر رقم کی ادائیگی پر اتفاق ہوا تھا۔ قطری شہزادے نے اپنے خط میں مزید کہا ہے کہ اُن کے والد اور میاں نواز شریف کے والد کے درمیان کاروباری تعلقات تھے اور اُن کے بڑے بھائی کاروباری معاملات کو دیکھا کرتے تھے۔ اس کے باوجود سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق نواز شریف کو نااہل قرار دیا اور یوں میاں نواز شریف اپنی وزارت عظمیٰ سے سبکدوش ہوگئے۔

پاکستان کی تاریخ میں ایک بار پھر جب 2022 عمران خان کی حکومت کے خلاف جب تحریک عدم اعتماد لائی گئی اور عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے اتارا گیا تو عمران خان نے بھی ایک خط کا سہارا لیا جس کو امریکی خط کا نام دیا گیا جس کو عمران خان نے امریکی سازش کا بیانیہ بنا کر عوام کو یقین دلوانے کی کوشش کی کہ میری حکومت کو امریکہ کی بناء پر گرایا گیا، یوں اسی طرح عمران خان نے اس امریکی خط کو پورے پاکستان کے عوام میں مہم کے طور پر پھیلایا اور سپریم کورٹ کو صدر کی طرف سے اس پر جوڈیشل بیھٹانے کا کہا گیا لیکن سپریم کورٹ کی طرف سے اس امریکی خط پر سپریم کورٹ کی طرف سے جوں تک نہ رینگی، لیکن عمران خان نے اس خط کو اپنی مہم کیلئے پنجاب کے ضمنی انتخابات میں اپنی پارٹی کو کامیاب کروایا، اور 20 میں سے 15 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔

جب گزشتہ روز 22 جولائی کو وزرات اعلیٰ کیلئے ووٹنگ ہونی تھی تو جب ووٹ دونوں پارٹیوں کی طرف سے کاسٹ کر لئے گئے تو پی ٹی آئی کے186 اور ن لیگ کے 179 ووٹ کاسٹ ہوئے لیکن ڈپٹی اسپیکر کی طرف سے ایک بار پھر پاکستانی تاریخ میں گجراتی خط کو لایا گیا اور اس گجراتی خط کا حوالہ دے کر ق لیگ کے پی ٹی آئی کو کاسٹ کیے گئے دس ووٹ کو مسترد کر دیا اور حوالہ دیا کہ ق لیگ کے سربراہ چوھدری شجاعت نے پی ٹی آئی کے وزیراعلی کو ووٹ سے اپنے ممبران کو منع کیا گیا، جس کی بنیاد پر ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ دیکر پی ٹی آئی کے دس ووٹوں کو مسترد کر دیا گیا اور یوں حمزہ شہباز شریف کو ایک بار پھر وزیر اعلیٰ کے لیے منتخب کر دیا۔

پی ٹی آئی کی طرف سے ماہر قانون دان راجہ بشارت کی طرف سے ڈپٹی اسپیکر کو اسمبلی میں سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ ممبران پر ووٹنگ کے حوالے سے صرف پارلیمانی پارٹی لیڈر کو دسترس ہوتی ہے اور پارٹی سربراہ کی دسترس پارلیمانی پارٹی لیڈر پر ہوتی ہے، لیکن ڈپٹی اسپیکر اور راجہ بشارت دونوں کی طرف سے 63 اے قانون کو پڑھا گیا لیکن ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ دیں کر دس ووٹ مسترد کر کے یوں حمزہ شہباز کو وزیراعلی قرار دیا۔

اب ایک بار پھر تحریک انصاف اور ق لیگ کی طرف سے سپریم کورٹ کا دروازا کھٹکھٹایا اور ڈپٹی اسپیکر کے خلاف رولنگ پر درخواست جمع کروا دی۔ سپریم کورٹ کے سنگل بینچ نے ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری، ق لیگ اور پی ٹی آئی دونوں کو دو بجے طلب کیا گیا پی ٹی آئی کی طرف سے علی ظفر نے اپنے دلائل جمع کروائے تو دوسری طرف ن لیگ کی طرف سے عرفان قادر کی طرف سے دلائل جمع کروائے۔ دونوں جانب وکلاء اور ججوں کی طرف سے تقریباً دو تین گھنٹے مکالمہ چلتا رہا اور یوں پھر عدالت سے ن لیگ کے وکیل نے مزید وقت مانگا، عدالت نے آج کی تمام سماعت پر حمزہ شہباز کو یکم جولائی کی حیثیت سے دوبارہ عبوری وزیر اعلیٰ کے لیے حکم دے دیا اور اب بروز سوموار 25جولائی کو دوبارہ طلب کیا گیا۔

اب دیکھتے ہیں کہ سپریم کورٹ اس بار پھر کیا فیصلہ سناتی ہے اور پھر ناجانے کونسا خط لایا جاتا ہے یوں پاکستان میں اگر دیکھا جائے تو خطوط کا کردار ہمیشہ سے چلتا آرہا ہے خدا جانے مزید کب تک چلتا رہے گا، اگر ہمارے حکمرانوں کو فرصت ملیں تو ان خطوط کے علاوہ بھی پاکستان میں ہزاروں مسائل پر غور کریں۔

Check Also

Lost Ladies

By Rizwan Gormani