1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Waqas Rashid
  4. Kikar Ki Hockeyan

Kikar Ki Hockeyan

کیکر کی ہاکیاں

پچھلے دنوں فخرِ پاکستان شہباز سینئیر سوشل میڈیا پر موضوعِ گفتگو رہے۔ پاکستانی قوم کی جانب سے عدم توجہی کا شکار قومی کھیل ہاکی کے سابق ورلڈکپ فاتح اس کپتان نے پوری دنیا میں ملک کا نام روشن کیا اور اس عہد میں ہاکی ورلڈکپ کی داستان بھی کرکٹ جیسی ہے یعنی جب کسی کو یقین نہیں تھا کہ پاکستان فاتحِ عالم بن سکتا ہے۔ یکے بعد دیگرے ورلڈکپ اور چیمپئین ٹرافی جیتنے کے بعد پاکستان میں قومی کھیل کو ایک بار پھر عروج ملا تھا۔

ریلوے کالونی خواب نگر ملکوال کھیلوں کی آماجگاہ ہوتی تھی۔ سکرین کی دنیا میں محو ہمارے بچے نہیں جانتے کہ وہ کیا سماں تھا۔ سکرین ہمارے دور میں بھی ہوتی تھی لیکن کھوئے آلیے ملائیاں والیے والی قلفی میں پر ثابت کرنے پر انعام کبھی نہیں ملا تھا۔ آج تک یہی معلوم نہیں کہ ثابت کرنا کیسے تھا۔

ملکوال میں اس وقت ہاکی گراؤنڈ بھی نیا نیا بنا تھا۔ جہاں لوگوں کو کرکٹ کھیلتے ہی دیکھا تھا۔ ہاکی صرف ہائی سکول گراؤنڈ میں ہوا کرتی تھی۔

بہرحال ہم ہاکی کے شوقین بچے، بابر اعظم کی طرح کہتے نہیں ثابت کرتے تھے کہ ہمارا لیول ہی اور ہے۔ ریلوے کالونی میں تب گیس نہیں ہوا کرتی تھی اب کا نہیں معلوم۔ اس وقت کے میمز الگ طرز کے تھے۔ ایک پی ٹی وی ہوتا تھا اور اس پر ہاکی کے کھلاڑیوں کو بلا کر انکی کم آمدن کے بارے میں طنز ومزاح ہوتا تھا۔ اس وقت بھی کرکٹرز اور ہاکی پلیئرز کی آمدن میں تفریق انکی "کِٹس" کی طرح ہوتی تھی۔

بہرحال قومی کھلاڑیوں اور گھر کی آمدن کے مطابق ہم نے ہاکیاں خریدنے کے لیے لکڑیوں کے ٹال کا رخ کیا۔ اور وہاں سے ایسی لکڑیاں ڈھونڈنی شروع کر دیں جنکے ساتھ 90 ڈگری سے زیادہ کی مضبوط ٹہنیاں ہوں۔ انہیں لے کر تلوایا اور گھر آکر ٹوکا، کلہاڑی اور بڑے چھرے کی مدد سے ہاکیاں تیار کیں۔ کیکر کی لکڑیوں میں ہاکی تیار کرنے کا تجربہ کمال ہوتا تھا۔ پھسپھسی گیند کی مدد سے خودساختہ ہاکیوں سے جو شام کو میلہ سجتا۔۔ اللہ اللہ۔ یقین کریں دوسرے محلوں سے ٹیمیں بھی آتیں۔ کیریڈ، پینلٹی کارنر، پینلٹی سٹروک، آبسٹرکشن۔۔ سب کچھ ہوتا۔ کچھ گارڈ صاحبان کے بچے اپنے ابا کی سیٹی لے آتے اور میچ شروع۔

ہاکی بلیڈ کی چوڑائی کو کور کرنے کے لیے اسے زمین سے تھوڑا اوپر اٹھانا پڑتا۔ میرا کام تب بھی یہی ہوتا کہ چند ایک کھلاڑیوں کو ان کیکری ہاکیوں کو سکول کے استادوں کی طرح بطورِ مولا بخش یا غزوہِ ہند کے مجاہدوں کی طرح بطورِ تلوار استعمال کرنے سے روکتا رہوں۔ ایک شام ہاکی کھیلتے بچپن کے ایک یادگار کردار تشریف لائے۔ ہمارے سب سے چھوٹے چچا انکل فضل۔۔

کمال کی بات ہے۔ باپ، چچا، ماموں بن کر پتا چلا۔ خدا ان بچوں کو سلامت رکھے اور بڑے انسان بنائے کہ انسان کی کل ذمہ داری اپنی محرومیوں کو دوسروں کی عطا میں ڈھالنا ہے۔ اپنے بچپن کی حسرتیں اگلی نسل کا ورثہ نہ بنیں۔

انکل فضل بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ ان سے بھی چھوٹی پھپھو عطیہ جنہوں نے اپنے والد کو دیکھا ہی نہیں۔ اپنے سب سے بڑے بھائی کی اولاد کے بچپن میں ہی گویا ماں باپ بن گئے۔ ان بچوں کے ہی نہیں اپنے بھی بچپن میں۔

انکل فضل نے اپنے بچپن کی محرومیوں کے زخموں پر ہمارے نام کے پھاہے رکھے۔ مجھے یاد ہے ابا کے کوٹ کو کاٹ کر بنائے گئے بستے انکے لائے ہوئے نئے بستوں سے بدلے تھے تو وہ دن ایسا تھا جیسے سرکاری سکول پرائیویٹ ہوگیا اور اسے میں نے خریدا ہے۔ زندگی میں پہلا جیومیٹری بکس انہوں نے لا کر دیا تھا اس ایریزر کی مہک آج بھی نتھنوں میں ہے۔ پینسلز کا ڈبہ زندگی میں پہلی بار دیکھا تھا۔ کمال شفقت دکھائی انہوں نے بچپن اور لڑکپن میں۔ کھلے دل کے آدمی رہے۔

بچپن میں عید پر سب سے زیادہ انکے آنے کا انتظار ہوتا بتانے کی ضرورت نہیں کہ وجہ عیدی ہوتی۔ مجھے یاد ہے ایک بار موٹر سائیکل پر لاہور سے ملکوال پہنچے۔ کچھ دیر سستائے پھر بند گوبھی تل کر کیا شاندار سلاد تیار کیا تھا۔ زندگی میں پہلی بار کھایا تھا وہ سلاد۔ عید پر انکے دوست یونس صاحب کی دکان پر انکے ساتھ کھڑے ہو کر پان لگواتے ہم اچانک خود کو بڑا محسوس کرتے اور ساتھ جب وہ بوتلیں کھلواتے تو سرور ہی الگ ہوتا۔

پی آئی اے کی ڈیوٹی فری شاپس پر ملازمت کیا کرتے تھے۔ وہ سرکاری وردی بڑی جچتی تھی انہیں۔ دیالو آدمی تھے۔ کثرتِ اولاد کے ساتھ بیوگی کا بوجھ اٹھاتی اپنی ماں اور ہماری دادی اماں، عرف اماں جی کی بڑی خدمت کی انہوں نے۔ وقت کے دیے ہوئے حسرتوں کے گھاؤ مگر تصویری کاغذوں کے پیچھے محض چھپتے ہیں مندمل نہیں ہوتے۔

ہمارے ددھیال کی ایک مشترکہ صفت کتاب ہے۔ رشک آتا الیکٹریکل کے ایک ڈپلومہ ہولڈر کو جان کیٹس، شیکسپئیر کو پڑھتے دیکھ کر، بڑی پہلے فلسفیانہ گفتگو کرنے لگے تھے۔ اشفاق احمد بانو قدسیہ نہ جانے کس کس کو پڑھا کرتے۔ پرانے گیت بھی سب کا مشترکہ خاصہ ہے۔ مکیش جی کے "سنسار ہے اک ندیا دکھ سکھ دو کنارے ہیں، نہ جانے کہاں جائیں ہم بہتے دھارے ہیں سے لے کر نصرت فتح کی "سنڑ چرخے دی مٹھی مٹھی کوک، پر سر دھنتے انہیں کبھی آئیڈیالائز کیا کرتے۔ بچپن کے ہمارے ہیرو تھے انکل جی۔

پھر وہ انکی شادی کیا ہی حسین یادگار تھی۔ بات ہے سن 1994 کی۔ ہائی سکول ملکوال میں نویں جماعت میں ہم پڑھتے تھے۔ سکول کے ٹیبل ٹینس ٹورنامنٹ کے دوران لاہور گئے، وہاں سے میچ کے لیے واپس آئے۔ قومی سیاست میں ملکوال کے ابھرتے ہوئے ستارے اپنے دوست بھائی خرم مشتاق سے پہلی ملاقات تب ہی ہوئی تھی۔ یہ اسی شادی کے دوران کا احوال ہے کہ گھر میں جن صاحب کی شرافت کے باعث انہیں چھوڑا تھا انہیں کچھ نہ ہاتھ لگا تو ایک چھوٹی سی صندوقچی میں پڑی ہماری عمر بھر کی جمع پونجی لے اڑے۔ اب آپ کو یہ بھی بتانا پڑے گا کہ وہ دو اڑھائی سو روپے تھے۔ ہنس لیجیے بے شک۔۔ آپ کا ہنسنا بتاتا ہے کہ آپ مجھ سے کہیں چھوٹے ہیں۔

انکی شفقت سے مالا مال عظیم خاتون میری بڑی بہن کی جگہ تحریم بیٹی اس آغوش میں آتی میں نے دیکھی پھر زندگی اپنی اپنی دوڑ سی بن گئی۔ ایک ہی کارواں کے مسافروں کے درمیان فاصلے آ گئے۔ ان کا حق تھا ادا نہ کرنے کا اعتراف ہے۔ مگر بڑے لوگ ہیں۔ اپنی مسکراہٹوں سے محروم نہیں کرتے۔ یہ ماتھے تیوریوں کے لیے نہیں بنے۔ زندگی میں ماتھوں پر تیوریاں بعد میں مہراب بنتے دیکھیں۔

انکی شادی پر ہی محبت نے تب دل پر پہلی دستک دی تھی جب اسکے معانی بھی نہیں جانتا تھا۔ وہ خواب جو بعد میں تعبیر کا روپ دھار کر پھر خواب ہوا۔ چھوڑیے۔۔

ڈیوٹی فری شاپس کے بند ہونے پر ایک کھلے دل اور ہاتھ والے انکل جی دائرے کے سفر میں وہیں پہنچ گئے جہاں سے چلے تھے۔ مگر سلام ہے، بخت کی حسرت ہی رہی ان لوگوں کو ہرانے کی، بھوک، محرومی، احتیاج، کرب، سب دے کے دیکھ لیا۔ تھک ہار کے دیکھا تو اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دھیما سا مسکرا رہے تھے " دیونے کے درویش"۔۔

پچھلے دنوں بات ہوئی، کہا کبھی سستانے آئیں میرے ہاں، کہنے لگے گھر کے پانچ لوگ ہیں، جتے پڑے ہیں سخت دور ہے۔ دو بیٹیاں، ایک بیٹا۔ روشن آنکھوں والے بچے۔ دور ہی سے چمکتے رہیں۔ کرنیں آتی رہیں۔

ارے بھیا، ہاکی سے بات "گول" تک پہنچ گئی۔ لوگ کہتے ہیں لمبی بات کرتے ہو، مختصر ہوتی نہیں داستاں کیا کیجے، انکل جی اسی شام علی جنرل سٹور پر لے گئے تھے۔ مدنی صاحب کو خدا بخشے بڑی سہانی یادیں ہیں انکے ساتھ۔ انکی دکان سے تین ہاکیاں خریدیں انہوں نے۔ کیا بتاؤں اگلے دن کیا سماں تھا۔ کیکر کی بنی ہاکیوں کے درمیان تین اصلی ہاکیاں۔ ادھر شہباز سینئیر تھا ادھر وقاص سینئیر۔ لگتا تھا ہاکی اڑان بھرتی ہو۔ بڑی مدت وہ چلیں ہاکیاں۔

چالیس کے بعد زندگی "نوسٹیلجیا" ہے۔ کہاں کس شے سے کس یاد کی جڑت ہو جائے کسے خبر، سفر آگے کو نگاہ پیچھے کو۔ انکل جی، سلام پیش کرتا ہوں۔ آپ لوگوں نے ہمارے بچپن میں، ہمارے بچوں کا بچپن طے کر دیا تھا۔۔ مجھے لگتا ہے اس میں دکھائی دیتے پھول ہماری اگلی نسل ہیں کہ جب آپ لوگ اس راہِ پر خار پر نکلے تھے تو یہاں یہ پھول نہیں تھے۔ بنجر زمین تھی، ان پھولوں سے پہلے یہاں کیکرکے درخت تھے، جن سے کیکر کی ہاکیاں بنتیں تھیں۔ یہ رنگ و بو آپ لوگوں کے نام۔۔ سلامت رہیں انکل جی۔۔ بڑےلوگ ہیں آپ۔۔

Check Also

Siasat Se Pehle Riyasat

By Umar Khan Jozvi