Takht e Punjab Ka Faisla Aaj
تخت پنجاب کا فیصلہ آج
پاکستان بننے کے بعد پنجاب شروع سے ہی ہر اس سیاسی پارٹی کے لیے حاصل کرنا بہت ضروری ہوتا تھا، کیونکہ اصل حکمرانی پاکستان پر وہی کرسکتا ہے جس کے پاس پنجاب کے قلعے کی حمایت ہو، یوں جب سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت 2018 میں آئی تو انہوں نے سب سے پہلے پنجاب میں جوڑ توڑ کر کے پنجاب میں اپنی اکثریت ق لیگ اور کچھ آزاد ارکان کی مدد سے حاصل کر لی، اور ن لیگ سے آخر کار پنجاب کی حکومت برسوں بعد چھین لی گئی۔
اسی پنجاب کی بنیاد پر پاکستان تحریک انصاف نے ساڑھے تین سال پاکستان پر حکمرانی کی پھر اس کے بعد عدم اعتماد آیا اور مرکز میں حکومت گرائی اور ن لیگ کا مرکز پنجاب میں بھی ن لیگ نے کچھ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھیوں کو ملا کر یوں ایک بار پھر اپنے پنجاب کو حاصل کر لیا اور اس کے وزیراعلی حمزہ شہباز شریف بن گئے، چونکہ ن لیگ نے پاکستان تحریک انصاف کے ٹکٹ ہولڈر کو ساتھ ملا کر وزرات اعلیٰ حاصل کی، تو تحریک انصاف نے عدالت سے رجوع کیا اور عدالت نے ان 20 حلقوں میں دوبارہ الیکشن کروانے کا حکم دیا۔
جو 20 ممبر کہہ رہے تھے ہمارا ضمیر جاگ گیا اور اب ہم تحریک انصاف کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے، یوں پھر ان بیس حلقوں پر 17 جولائی کو الیکشن ہوا اور ایک بار پھر ن لیگ وزارت اعلیٰ سے دستبردار ہونے کے قریب ہوگئی۔
پنجاب خاص طور پر لاہور ن لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ لیکن لاہور میں 4 میں سے تحریک انصاف نے 3 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ جس پر ن لیگ اور ان کے چاہنے والوں میں تشویش کا اظہار کیا گیا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین و سابق وزیراعظم عمران خان نے ضمنی الیکشن سے پہلے بیس کے بیس حلقوں میں جا کر اپنے نمائندوں کی مہم چلائی اور اپنے بیانیہ کو خوب مضبوط کیا اور اس ضمنی انتخاب میں عمران خان کا بیانیہ عوام نے قبول کیا اور ایک پھر پنجاب کی حکمرانی کے لیے تحریک انصاف کی راہیں صاف کی۔
عمران خان کے بیانیہ کی بنا پر ان کو پنجاب میں 20 میں سے 15 سیٹیں حاصل ہوئی، اسی طرح مریم نواز بھی اپنے نمائندوں کی مہم میں تمام حلقوں میں گئی سوائے ایک دو کے، لیکن اس کے باوجود ن لیگ کو ان 20 میں سے صرف 4 سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی، جن میں ایک لاہور، روالپنڈی، بہاولنگر اور مظفرگڑھ کے حلقے شامل ہیں جبکہ ایک لودھراں سے سید رفی الدین بخاری آزادی حیثیت سے کامیاب ہوئے۔ چونکہ عدالت کے فیصلے کے مطابق ان حلقوں میں ضمنی الیکشن اس لیے کروائے گئے تھے کہ انہوں نے اپنی ہی پارٹی کے خلاف حمزہ شہباز کو وزیراعلی بننے کے لیے ووٹ دیا تھا جس کے باعث عدالت نے ان 20 حلقوں پر دوبارہ سے الیکشن کروانے کا حکم دیا تھا، ان 20 حلقوں میں 10 حلقوں کے ممبر دو ہزار اٹھارہ میں آزاد حیثیت سے جیت کر پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے، اور 10 حلقوں کے ممبر پاکستان تحریک انصاف کی ٹکٹ پر لڑ کر جیتیں تھے۔
بیشک یہ پاکستان تحریک انصاف کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ دو ہزار اٹھارہ میں ان 20 میں سے 10 ممبر آزاد حیثیت سے جیت کر پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے، اس لیے پاکستان تحریک انصاف نے اپنی 10 سیٹوں کے ساتھ 5 سیٹیں مزید حاصل کیں جو دو ہزار اٹھارہ میں ان 5 سیٹوں پر پاکستان تحریک انصاف شاید تیسرے چوتھے نمبر پر تھی، لیکن اس بار ضمنی الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف پہلے نمبر پر آئی، اسی طرح ن لیگ کو 4 سیٹیں مزید ملی جن پر ان کے ٹکٹ ہولڈر دو ہزار اٹھارہ میں تیسرے چوتھے پر رہیں اس لہذ سے اگر دیکھا جائے تو اس ضمنی الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف نے صرف ن لیگ سے 1 سیٹ پر کامیابی حاصل کی کیونکہ 10 سیٹیں پاکستان تحریک انصاف کی تھی اور 10 آزاد، اس بنیاد پر 10 آزاد میں سے پاکستان تحریک انصاف کو 5 جبکہ ن لیگ کو 4 اور 1 آزاد حیثیت سے کامیاب ہوا۔
اب پنجاب اسمبلی میں وزرات اعلیٰ کے لیے تحریک انصاف کو واضح اکثریت حاصل ہے، لیکن پنجاب کی ازل سے روایات کے مطابق خرید وفروخت کا عمل بھی سرگرم ہیں ن لیگ اور تحریک دونوں کے ایم پی ایز کا دعویٰ ہے کہ ہمیں کروڑوں روپے کی آفر آئی ہے فواد چوہدری کے مطابق ہمارے ایک ایم پی اے کو کروڑوں روپے دیکر باہر بھیج دیا گیا۔
ن لیگ کے عطا تارڑ کا دعویٰ ہے وہ پہلے سے ہی استعفیٰ دے چکا ہے اور ہم نے اس کو پیسے نہیں دییے ادھر شرقپور صاحب نے بھی پرویز الٰہی کو استعفیٰ جمع کروادیا ہوا ہے اور ساتھ میں شیخ رشید کی آڈیو بھی لیک ہوتی ہے کہ شرقپور صاحب کو پیمنٹ ہوگئی ہے اور شیخ رشید بھی اس کی تصدیق کر رہے ہیں اور کہتے ہیں یہ صرف مذاق تھا، پتہ نہیں کل تک کیا ہوتا دونوں جماعتوں نے اپنے ممبران کو ہوٹلوں میں قید کر کیا دیکھوں کل پنجاب کا سہرا کون پہنتا ہے، اب آج 22 جولائی کو دوبارہ پنجاب کے وزیراعلی کے لیے ووٹنگ ہوگی۔
پنجاب کی 20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد صوبائی اسمبلی میں پارٹیوں کی پوزیشن سامنے آگئی ہے جس کے تحت پاکستان تحریک انصاف اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستوں کے ساتھ اوپر ہے۔
پنجاب میں اس وقت سامنے آنے والی پارٹی پوزیشن کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کے اسمبلی میں پہلے 163 ممبران تھے لیکن ضمنی الیکشن میں 15 نشستیں حاصل کرنے سے اس کے ارکان کی تعداد 178 ہوگئی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف 178، ق لیگ 10 اور مجموعی نشستیں 188 ہوگئی۔ اسی طرح ن لیگ 168، پی پی 7، آزاد 3، راہ حق پارٹی ایک اور کل نشستیں 179 ہوگئی ہیں۔ 17 جولائی کو ہونے والے ضمنی الیکشن میں ایک آزاد امیدوار بھی کامیاب ہوا ہے جب کہ رکن پنجاب اسمبلی چوہدری نثار غیر فعال ہیں۔
پنجاب اسمبلی کے 371 کے ایوان میں ن لیگ کے 2 ارکان کے استعفوں کے بعد اس وقت بھی 2 نشستیں خالی ہیں۔ اب چونکہ ایوان میں تحریک انصاف کی تعداد زیادہ ہے اور اب ان کے لیے وزارت اعلیٰ حاصل کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہے لیکن دونوں طرف سے خریداری کی وجہ سے تمام لوگ انتہائی تشویشناک کا اظہار کر رہے ہیں کہ آج کیا ہوگا۔