Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Taimoor Khattak
  4. Quaid Aap Ki Aaj Yaad Aayi

Quaid Aap Ki Aaj Yaad Aayi

قائد آپکی آج یاد آئی

پاکستان تحریک انصاف کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد پنجاب ہمیشہ سے سیاسی کشمکش میں رہا کیونکہ پنجاب کو حاصل کرنا، ہر اس سیاسی پارٹی کے لیے اتنا ضروری ہوتا ہے، جتنا ایک مچھلی کے لئے پانی میں رہنا ضروری ہوتا ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے عثمان بزدار کو وزارت اعلیٰ سے ہٹا کر پرویز الہٰی کو حمزہ شہباز کے مقابلے میں کھڑا کیا۔

جس پر حمزہ شہباز کو پنجاب اسمبلی میں ووٹنگ کے دوران برتری حاصل ہوئی، جس میں پاکستان تحریک انصاف کے 20 ارکان نے حمزہ شہباز کو اپنی ہی پارٹی کے خلاف ووٹ دیئے اس کی بنیاد پر پاکستان تحریک انصاف نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست جمع کروائی کہ ہمارے ارکان نے پارٹی ہدایت کے برخلاف اقدام کیا جس کی بنیاد پر ان کو ڈی سیٹ کر دیا جائے۔

لاہور ہائیکورٹ نے سماعت کے بعد فیصلہ دیا کہ پاکستان تحریک انصاف کے ارکان نے اپنی پارٹی کے برخلاف دوسری پارٹی کو ووٹ دیئے، جس کی بنیاد پر آئین و قانون میں حکم ہے کہ ان کو ڈی سیٹ کیا جائے اور فیصلہ یہ دیا کہ ان بیس حلقوں پر 17 جولائی کو دوبارہ ضمنی الیکشن کروائے جائیں، تاریخ کے مطابق ان بیس حلقوں پر الیکشن کروائے گئے ہے۔

جن کے نتیجے میں تحریک انصاف کو ان بیس حلقوں میں سے 15 حلقوں میں برتری رہی، جس میں سے چار حلقوں پر ن لیگ کو اور ایک حلقے میں آزاد رکن کامیاب رہا۔ الیکشن کے بعد پنجاب کے وزیراعلی کے لیے بھی 22 جولائی کو ووٹنگ ہوئی اور جس میں پاکستان تحریک انصاف کے وزیراعلی کو 186 اور نون لیگ کے حمزہ شہباز کو 179 ووٹ پڑے۔

لیکن ووٹنگ کا نتیجہ سناتے وقت ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری نے پاکستان تحریک انصاف کے 10 ووٹوں کو مسترد کردیا۔ جس کی بنیاد یہ بتائے گی کہ قاف لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت نے ایک لیٹر بھیجا، جس میں واضح لکھا ہے کہ قاف لیگ کے ارکان نے پی ٹی آئی کو ووٹ نہیں دینا کا حکم دیا گیا گے۔ جس کی بنیاد پر میں پی ٹی آئی کے 10 ووٹوں کو مسترد کرتا ہوں۔

جس کے حمزہ شہباز ایک بار پھر وزیراعلی قرار پائے، تحریک انصاف اور ق لیگ نے سپریم کورٹ سے استدعا کی اور ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کیخلاف درخواست دی، جس پر سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سماعت کی اور 26 جولائی کو پہلے 5:45 اور پھر 7:45 کا فیصلہ سنانے کا وقت دیا، لیکن اس کے باوجود فیصلہ رات کے تقریباً نو بجے سنایا اور پھر صرف دو لفظوں سے معزرت کی کہ مجھے فیصلے سنانے میں دیر ہوئی۔

اور آخر ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو کالعدم قرار دیا اور پنجاب کی پگ پرویز الٰہی کے سر پر رکھ دی۔ جب میں یہ سماعت ٹیلیوژن پر سن رہا تھا تو خیال آیا کہ اگر ہمارے وطن عزیز کا سپریم ادارہ اگر وقت کی پابندی نہیں کر سکتا۔ جس نے عام لوگوں کو انصاف دلوانا ہے۔ جس نے آئین پاکستان کی پاسداری کروانی ہے، جس نے قانون کو بالا تر رکھنا ہے۔

جس کے زمہ ہمارا سب سے بڑا ادارہ سپریم کورٹ جو وطن عزیز کی آخری امید ہوتی، اگر اس کا چیف یا سربراہ ہی وقت کی پابندی نہیں کرسکتا تو کون آئین و قانون کی پاسداری کریں گا، اس وقت وطن عزیز کے بانی قائد محمد علی جناح کی شدت سے یاد آئی کہ کسیے انہوں نے آئین و قانون کو بلند رکھا، اور ہمیشہ وقت کی پابندی کی، محمد علی جناح خود بھی وقت کے پابند تھے اور دوسروں سے بھی یہی امید رکھتے تھے۔

ایک مرتبہ بمبئی کے سیشن کورٹ میں محمد علی جناح کی پیشی تھی اور عدالت کا وقت ختم ہو رہا تھا اور آپ دلیلیں دیں رہے تھے کہ اچانک خاموش ہو گئے۔ جج نے پوچھا کہ مسڑ جناح مزید آپکو مزید کتنے دلائل اور وقت چاہیے، مسڑ جناح نے کہا مایی لورڈ صرف پندرہ منٹ تو جج نے کہا آو کے مسٹر جناح ہم آپ کے لیے مزید پندرہ منٹ پیشی جاری رکھتے تو مسڑ جناح نے کہا سوری مایی لورڈ مجھے کوئی اور تاریخ دے دیں۔

کیونکہ کہ ابھی میری کچھ اور اپوائنٹمنٹ ہے۔ یہ بات سن کر چیف جسٹس کو بہت برا لگا تو انہوں نے کہا مسٹر جناح ہم سب کی اپوائنٹمنٹ ہے، تو جناح نے بڑے پر اعتماد لہجہ میں کہا مایی لورڈ آپ اور مجھ میں یہی تو فرق ہے کہ میں اپنی اپوائنٹمنٹ کا احترام کرتا ہوں، یہ تھے ہمارے قائد یہ تھے ہمارے لیڈر یہ تھے تب کے برصغیر کے بیسویں صدی کے عظیم وکیل جو ہمیشہ وقت کی پابندی کرتے تھے۔

یہ تھے ہمارے پاکستان کے بانی جنہوں نے اسلام کے بنیادی اصولوں پر عمل اپنی زندگی میں بھی کیا اور انہی اصولوں کیلئے ایک الگ وطن کا مطالبہ کیا تاکہ ہم اپنے دین اسلام کے تمام اصولوں کی مشق کر سکے اور دنیا عالم کو بتا سکے کہ ہمارا دین اسلام کتنا عظیم ہے اور وہ کیسے ایک وقت ایک وعدے اہک امانت ایک پر امن دین ہے لیکن آج کہ ہمارے ججز، حکمران بیوروکریٹس فوج اور میڈیا سمیت تمام اداروں کو اگر غور سے دیکھیں۔

تو ہمیں کسی بھی ادارے میں اقبال رح کے خواب اور قائداعظم جیسی بصیرت اور سنہری اصول دیکھائی نہیں دیتے، قائد رح صرف عدالت کے کمروں تک ہی نہیں، بلکہ محمد علی جناح جب پاکستان کے گورنر جنرل بنے تو تب بھی آپ دوسروں کی اپوائنٹمنٹ کا خیال رکھتے تھے تب کی بات ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے اپنے ہاتھ سے ایک رقعہ ٹیلر یعنی درزی کو لکھا کہ آپ ڈھائی بجے مجسے ملیں۔

اگر اپکی کہیں اور اپوائنٹمنٹ ہے، تو آپ میرے سیکرٹری کو اطلاع دے دیں اور کسی اور وقث میں مجھ سے مل لیں۔ یو ہمارے قائد کے لیے ایک درزی کی اپوائنٹمنٹ کا بھی احترام تھا۔ انہوں نے ہمیشہ اپنی زندگی کو اسلام اور دنیاوی قانون کے تحت زندگی گزاری اور ہمیشہ انصاف کے تقاضے پورے کیے ہمیشہ انصاف کے بول بالا کے لیے کام کیا وہ بیشک ہمارے وطن عزیز کے رول ماڈل اور ہیرو ہے، قائد آپکی آج یاد آئی، قائد آپکی آج یاد آئی

Check Also

Raston Ki Bandish

By Adeel Ilyas