Hamen Aik Misaq e Maeeshat Ki Zaroorat Hai
ہمیں ایک میثاق معیشت کی ضرورت ہے
وفاقی ادارہ شماریات نے ہفتہ وار بنیادوں پر مہنگائی کے اعداد و شمار جاری کر دیئے، جس کے مطابق مہنگائی کی شرح میں 3 سے 35 فیصد مزید اضافہ ہوا، حالیہ ہفتے کے دوران 25 اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھ گئی، ٹماٹر، پیاز، آلو، دالیں، چکن، فی درجن انڈوں کی قیمت میں اضافہ ہو گیا، ایک ہفتے کے دوران ٹماٹر کی فی کلو قیمتوں میں 18 روپے سے زائد، پیاز کی فی کلو قیمت میں 2 روپے، آلو کی فی کلو قیمت 65 پیسے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
ادارہ شماریات کے مطابق زندہ مرغی کی فی کلو قیمتوں میں 19 سے زائد اضافہ ہوا، فی درجن انڈوں کی قیمت میں 3 روپے 34 پیسے، دال ماش کی فی کلو قیمت میں 1 روپیہ، دال مونگ کی فی کلو قیمت میں 3 روپے، بیس کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت میں 36 پیسے کا اضافہ ہوا۔ حالیہ ہفتے کے دوران دہی، مٹن، خشک دودھ کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا، 11 اشیاء کی قیمتوں میں کمی اور 15 اشیا کی قیمتوں میں استحکام رہا، اڑھائی کلو گھی کا ٹن 4 روپے 7 پیسے کم ہوا، دال کی فی کلو قیمت میں تقریباً 1 روپے، دال مسور کی فی کلو قیمت میں 1 روپیہ سے زائد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔
ہفتہ وار مہنگائی کی شرح پاکستان کی تاریخ کی سب سے بلند سطح پر پہنچ گیا۔ اس کے باوجود موجودہ حکمران اپنی سیاست میں پڑے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے پر غداری کے فتوے لگا رہے ہیں۔ مجال ہے کہ کسی کو اس وطن عزیر کی فکر ہو جبکہ مہنگائی کی سطح ملکی تاریخ کی بلند سطح پر پہنچ گئی ہے جہاں ایک مزدور کی ماہانہ تنخواہ بیس سے پچیس ہزار ہوں، وہ کیسے اپنے گھر کا سرکٹ چلائے یا تو وہ خود کشی کرے گا یا اپنے بال بچوں کو جان سے مار دے گا۔
جس کے بعد میڈیا پر آ کر یہی حکمران لوگوں کو بے وقوف بنانے کیلئے فلسفہ جھاڑ دیں گے اور ہماری بے وقوف عوام ایک بار پھر ان کے شکنجے میں آ جائے گی۔ ابھی پچھلے ماہ کی بات ہے جب پنجاب میں ضمنی الیکشن ہونے تھے تو کیسے عمران خان اور مریم نواز نے جنوبی پنجاب میں جلسے کیے تھے اور ان کو باکمال طریقے سے بے وقوف بنایا تھا لیکن آج جب جنوبی پنجاب میں سیلاب اتنے خوفناک طریقہ سے آیا کہ گاؤں کے گاؤں ویران ہو گئے اور ایسے لگ رہا ہے جیسے یہاں کوئی آباد تھا ہی نہیں۔
لیکن بصد افسوس ان حکمرانوں جو پچھلے ایک ماہ کیلئے ان کے گھروں تک پہنچ گئے تھے لیکن جب ان عوام پر مشکل آ گئی ہے تو ان حکمرانوں میں سے کسی نے افسوس تک نہیں کیا اور نہ ہی اپنی کوئی ٹیم وہاں ان کیلئے بھیجی کہ ان غریب عوام کا مدوا ہی ہو سکے لیکن اس میں قصور ہماری عوام کا بھی ہے ایسے حکمران کو ووٹ دیتے کس لیے ہیں جنہوں نے ان کے غم و خوشی میں شامل تک نہیں ہونا۔
وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے یوم آزادی کے حوالے سے قوم سے خطاب کے دوران ایک بار پھر میثاق معیشت کی پیش کش کی ہے۔ جس طرح انہوں نے ایک بار قومی اسمبلی میں بطور اپوزیشن لیڈر میثاق معیشت کی پیش کش کی تھی اور آج بطور وزیراعظم پھر میثاق معیشت کی پیش کش کی جو قابل تحسین اور خوش آئند ہے۔
وقت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ بحیثیت قوم درست سمت میں سفر کو جاری رکھنے کیلئے اور قومی مفاد کو ذاتی انا، ضد اور ہٹ دھرمی کی بھینٹ سے بچنے کیلئے آج جس چیز کی اشد ضرورت ہے وہ صرف اور صرف میثاق معیشت ہے جو ہمیں ایک خوشحال معاشرے کی طرف گامزن کر سکتا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے جس طرح آج سے پچاس سال پہلے میثاق ایٹم بم بنایا گیا تھا جس میں ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء الحق، بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے ایک مثالی کردار ادا کیا تھا اور اس کو پایہ تکمیل تک پہنچایا تھا اور وطن عزیز اور عالم اسلام کو دشمنوں کے برے عزائم سے محفوظ کر دیا۔
لیکن آج جس امر کی ضرورت ہی وہ میثاق معیشت ہے۔ آج اگر معیشت پر تمام سیاستدان مل کر بیٹھ جائیں اور معیشت پر ایک لائحہ عمل بنا لیں تو انشااللہ ایک دن ضرور جس طرح ایٹم بم کو بنایا تھا اسی طرح چند ہی دنوں میں وطن عزیز ایک دنیا کی سپر پاور کہلا سکتا ہے۔ فقط اتنا کہ ہمارے موجودہ حکمران ملکی سلامتی جو اس وقت میثاق معیشت پر مبنی ہے اس کی اشد ضرورت ہے کہ مل بیٹھ کر اس کو ایک لائحہ عمل بنا دیں۔