Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Taimoor Khattak
  4. Agar Mujhe Qatal Kiya Gaya

Agar Mujhe Qatal Kiya Gaya

اگر مجھے قتل کیا گیا

کاغذ کی یہ مہک، یہ نشہ روٹھنے کو ہے

یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی

کتاب سے عشق و محبت اور مطالعہ سے شوق و لگاؤ رکھنے والے ہر انسان کو اس شعر میں غیر معمولی صداقت نظر آتی ہے اور آنے والے دور کی پرچھائیاں دکھائی دیتی ہیں۔ بعض شعر انسان کے ذہن و دل پر نقش کر جاتے ہیں اور انسان اس کے معانی میں ڈوب جاتا ہے، یہ شعر بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ جس کے اندر ایک تلخ حقیقت کو بہت ہی دلکش انداز میں بیان کیا گیا ہے۔

اور حقیقتاً کتابوں کی یہ آخری صدی ہے جس طرح ٹیکنالوجی نے ٹیک اوور کیا کتابوں کو بھی جدت پکڑنی پڑے گی نہیں تو یہ آخری صدی ہی کہلائے گی، آج کل پاکستان کے سابق صدر و وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی آب بیتی زیر مطالعہ ہے "اگر مجھے قتل کیا گیا" بھٹو صاحب کے بارے میں جو سنا اور پڑھا اس سے تو یہی سمجھ آیا کہ وہ واقعی ہی عوام میں ایک مقبول سیاستدان تھے خاص کر مغربی پاکستان میں۔

کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ جب سقوطِ ڈھاکہ ہوا تو اس سے پہلے مجیب رحمان جس کا مینڈیٹ چوری کیا گیا باوجود کہ انہوں نے اکثریت حاصل کی تھی الیکشن میں پھر بھی ان کو اقتدار نہیں دیا گیا اور اس سارے نتیجے میں قائداعظم کے پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا، بنگلہ دیش کا پاکستان سے الگ ہونا ہمارے لیے تو آج بھی ایسے ہی محسوس ہوتا جیسے ابھی کوئی ہولناک سانحہ ہوگیا ہو، محمودالرحمٰن کمیشن کی رپورٹ کیوں نہیں منظر عام پر لائی گئی۔

اگر تلہ سازش کی کیا حقیقت تھی، ادھر ہم ادھر تم بیانیہ کے کیا راز تھے، یہ تمام ایک الگ حقیقتیں ہیں، بھٹو صاحب کی آب بیتی پڑھنا شروع کی تو ابھی پہلا باب ہی پڑھا تھا کہ کتاب کو بند کر کے سو گیا، سوچا تھا کہ ماضی میں وطن عزیز میں باہر کی قوتوں کا دباؤ تھا سیاستدانوں کو کام نہیں کرنے دیا جاتا تھا اور صرف مسلم کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے اور مسلمانوں کو آگے بڑھنے سے روکنے کی سازش ہے۔

لیکن جب بھٹو صاحب کی کتاب کا پہلا باب پڑھا تو ایسے لگا جیسے میں آج کا اخبار پڑھ رہا ہوں وہی سیاسی عدم اعتماد، الیکشن کمیشن کی تعصبانہ سوچ اور الیکشن کمشنر پر الزام تراشیاں، الیکشن میں دھاندلی اور سیاسی کیس کی طرح کی خرابیاں جو آج ہمارے وطن عزیز میں پائی جاتی ہیں بالکل اسی طرح ماضی میں بھی یہی چلتا آ رہا ہے، مسٹر جسٹس سجاد علی خان جو اس وقت کے الیکشن کمیشن تھے اپوزیشن کی تنقید کے زد میں تھے اور طرح طرح کے الزامات سے شرف حاصل کر رہے تھے۔

جس طرح آج کے مقبول ترین سیاست دان جنابِ عمران خان صاحب ہیں جو کبھی امریکہ کو بیرونی سازش تو کبھی شریف خاندان تو کبھی زرداری و مولانا تو کبھی اسٹیبلشمنٹ تو کبھی الیکشن کمیشن جو خود کا لگایا گیا ہو خاص کر، اور اب جو رجیم چینج کے گیم جینجر ٹھہرائے جا رہے وہ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ جناب محسن نقوی جس کو خان صاحب نے ساری رجیم چینج کا شریک سفر ٹھرایا، نہ جانے اگلا اب کون ہوگا یہ نہیں معلوم۔

دنیا آج چاند ستاروں پر جانے کی باتیں، معاشی منصوبہ بندی اور ایڈوانس آرٹیفیشل انٹیلیجنس ٹیکنالوجی کے بارے میں سوچ رہی جبکہ ہم آج بھی ستر کی دہائی کی سیاست میں مصروف عمل ہیں اور دن بدن وطن عزیز کے وقار کو نیچا کرنے کی کوشش کر رہے، آج کیا نہیں ہو رہا جو ماضی میں ہوتا آ رہا ہے وہی سیاسی کیس اور الزامات، ایک دوسرے کو کام نہ کرنے دینا، دوسرے کا مینڈیٹ چوری کرنا، سیاست میں فوجی مداخلت کرنے سے لیکر ہر وہ سیاسی برائی جو ماضی میں چلتی آ رہی ہے۔

اس کو سہارا دینے میں آج کوئی بھی ایسی سیاسی پارٹی موجود نہیں جو اپنا کردار ادا نہیں کر رہی، خدارا وطن عزیز کی خاطر، قائد و اقبال کے پاکستان اور لاکھوں محب وطن جنہوں نے ایک نظریہ اور مقصد کیلئے اس سر زمین کو اپنے خون کی قربانی سے حاصل کیا اس کو فراموش نہ کریں اور وطن عزیز کیلئے میثاق معیشث کرے اور کم سے کم پچاس سالہ معاشی گول سیٹ کیے جائیں جس پر کوئی بھی تعصبانہ سوچ سے بالاتر ہو کر اور خلوص نیت سے کام کیا جائے۔

Check Also

Jaane Wale Yahan Ke Thay Hi Nahi

By Syed Mehdi Bukhari