Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Tahira Kazmi
  4. Ye Koi Umar Hai Salgirah Manane Ki?

Ye Koi Umar Hai Salgirah Manane Ki?

یہ کوئی عمر ہے سالگرہ منانے کی؟

ہمیں نہیں یاد کہ گھر میں کبھی کسی کی سالگرہ منائی جاتی تھی یا نہیں؟ لیکن یہ ضرور یاد ہے کہ فلمیں دیکھ دیکھ کر ہمارے ذہن میں یہ فتور آگھسا کہ زندگی کے وہ دن ضائع جو روکھے پھیکے طریقے سے گزارے جائیں۔ ہر گزرتا ہوا دن ماضی اور دوبارہ کبھی نہیں آئے گا اور ہر آنے والا دن پردہ غیب میں، کون جانے آئے یا نہ آئے۔ سو زندگی وہی جو لمحہ موجود میں ہو اور گزاری بھی ایسی جائے کہ بس آخری لمحہ ہو۔

سو اس کوشش میں سیمابی نے ہمیں تاک لیا اور پھر کبھی ٹک کر بیٹھنے نہ دیا۔ ایک اور بات جو ذات کا حصہ بنی وہ تھی کہ خوش رہنا یا خوشی سے زندگی گزارنا ہر کسی کے اپنے بس میں، اگر خوش ہونے کے لئے انتظار کیا جائے کہ کچھ عجب رونما ہو تو یہ امید لگانا عبث، خوشی ذات کے اندر سے پھوٹنی چاہئے کسی نہ کسی حیلے بہانے کے سہارے، اور جنم دن سے بڑا حیلہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔

سوچئیے جس دن آپ پیدا ہوئے ہوں گے، کسی اور کا توعلم نہیں لیکن آپ کی ماں نہ صرف مسرت سے بے حال ہوئی ہوگی بلکہ ادے نئی زندگی بھی ملی ہوگی سو کافی ہے نا ماں کی خوشی اور حیات نو، جنم دن منانے کے لیے۔

یہ فلاسفی ہم نے سیکھ لی یہی کوئی آٹھ نو برس کی عمر میں، اور جناب منانا شروع کر دیا جنم دن، آغاز میں امی ابا حیران ہوئے لیکن بجائے اس کے کہ ہماری بے ضرر خواہش کو رد کرتے، بھاگ کے ہو گئے اس میں شامل۔۔

ہم نے سالگرہ منانے کے ساتھ تحفے دینے کی ریت کو بھی لازم بنایا چاہے کوئی معمولی شے ہی کیوں نہ ہو۔۔ کچھ بڑے ہوئے تو بک سٹالز پہ برتھ ڈے کارڈز دیکھ لئے۔۔ لیجئے تحفے کے ساتھ کارڈز بھی شامل ہوئے ہمارے اس ایڈوینچر میں۔

پڑھنے کے لیے لاہور پہنچے۔ ہوسٹل میں سہیلیوں کا جمگھٹا اور سب ایک سے بڑھ کر ایک۔۔ جنم دن منانے کی ریت جاری رہی۔ کوئی مہینہ ایسا نہ ہوتا جب کسی نہ کسی کی سالگرہ نہ ہوتی۔

تحفہ دینے کے لیے ایک اصول وضع کر لیا گیا کہ قریبی دوست ہوگی تو تحفہ خود ہی دیں گے، دوسری صورت میں دو تین لڑکیاں پیسے ملا کر تحفہ اور کارڈ خریدیں گی۔ ان شاموں کے گواہ وہ کارڈ آج بھی ہمارے پاس ہیں۔

شادی ہوئی اور اس کے دو چار ماہ کے بعد جب ستمبر آیا اور صاحب کے دفتر کے پتے پہ روزانہ دو چار کارڈ موصول ہونے لگے تو حیرت سے بے ہوش ہوتے ہوتے بچے۔ خیر رنگ لیا ہم نے انہیں اپنے رنگ میں مگر کچھ دیر لگی۔ اگرچہ آغاز کے ان برسوں کی سرد مہری ابھی تک دل پہ لکھی ہے۔

بچے دنیا میں آئے۔ ہم نے ہر بار اور ہر بچے کی سالگرہ ایسے منائی کہ اکثر کوئی نہ کوئی کہہ جاتا کہ لگتا ہے شادی والا گھر ہے۔ یہ سمجھانے میں ہم اکثر ناکام رہتے کہ بچوں کو تمام عمر خوش ہونے یا خوشیاں منانے کے لیے شادی کا انتظار کروانا کچھ نامناسب ہے۔

کچھ کوکھ سے سیکھ کر نکلے تھے کچھ گود میں رہ کر سیکھ لیا اور وہ ہم سے بھی دو ہاتھ آگے نکلے۔ بچوں نے ماں کی سیمابیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر بار کوشش کی کہ ہر برس کچھ نیا اور الگ سے کیا جائے۔ سرپرائز پارٹیاں، رنگ برنگے کارڈز، انوکھے تحفے اور نہ جانے کیا کچھ۔

عمر تو گزرتی جا رہی تھی سو چالیس کے ہوئے، پھر پچاس کے اور اب انسٹھ، لیکن کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ یہ دن ہمارے لیے نہیں یا ہم اس کے لیے نہیں۔

پھر ہماری زندگی میں وہ لوگ شامل ہوئے جن سے ہمارا بندھن بنا الفاظ کے ذریعے۔ ہمارے قلم سے کاغذ کے دامن میں لکھے گئے الفاظ پڑھ کر ہم سے محبت کرنے والوں نے ہمارے ساتھ جنم دن منایا اور ایسے منایا کہ ہمیں لگا کہ ہماری دنیا کے ساتھ ساتھ ایک دنیا اور بھی ہے جو ہمارے ساتھ ساتھ چلتی ہے، جہاں بہت سے لوگ ہماری خوشی کی پرواہ ایسے کرتے ہیں جیسے ہمارے بچپن میں ہمارے خاندان نے کی۔

ایک ایک پیغام ہم نے پڑھا، کبھی ہنسے، کبھی مسکرائے، کبھی خود پہ ناز کیا اور کبھی آنکھیں بھیگ گئیں۔۔ کبھی ایسے لگا کہ یہ انتظام امی ابا کی طرف سے ہوا ہے کہ اس بھری دنیا میں ان کی عزیزازجان بیٹی خود کو تنہا محسوس نہ کرے، یقین جانیے آپ سب نے ہمیں ساتویں آسمان پہ پہنچا دیا، آپ سب کی محبت کا قرض کیسے لوٹائیں آپ کو؟

جنم دن کی شام گھر میں قریبی دوست تو تھے ہی کہ انہیں دعوت نامے کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن ساتھ میں ہسپتال کے کچھ ساتھی بھی تھے، شام اچھی گزری لیکن اگر رنگ میں بھنگ نہ مچتی تو ہم کیسے یقین کر لیتے کہ پدرسری ہمیں دیکھ دیکھ کر کیسے اپنے دانت کچکچاتی ہے۔۔

ایک جونئیر ڈاکٹر کے پاکستانی شوہر بیگم کو لینے آئے۔ نہ جانے شام کے وقت اور چھٹی والے دن بیگم کا گھر سے غائب ہونا کھلا یا بیگم کا پھولوں پہ خرچ کر دینا طبعیت کو برہم کر گیا۔ کار سے نکلتے ہوئے کہنے لگے، ذرا بڈھی کو مبارک تو دے دوں۔

طنزیہ لہجے میں معصوم نظر آنے کی کوشش کرتے ہوئے ہم سے پوچھنے لگے، اس عمر میں کون سالگرہ مناتا ہے بھلا؟ یہ تو ابتدائی عمر کا شوق ہے، زیر لب، چونچلے۔

اور یہ کہتے ہوئے وہ بھول گئے کہ یہ نرم گرم گفتگو وہ اپنی بیوی کی باس سے کر رہے ہیں۔

اپنے کیرئیر میں کامیاب عورت دیکھ کر اسے برداشت کرنا ایک مشکل امر تو ہے ہی اور اس کے ساتھ اگر وہ عورت پدرسری روایات کو رد کرتے ہوئے اپنی طرز کی زندگی گزار رہی ہو تو ہر ایرے غیرے نتھو خیرے پہ فرض ہو جاتا ہے کہ وہ فقرہ کستا ہوئے جائے۔ چاہے اس کوشش میں اس کی اپنی وضع قطع اتنی مضحکہ خیز نظر آئے کہ وہ خود کو بھی آئینے میں پہچان نہ سکے۔

ہمیں نہیں علم کہ وہ بے چاری گھوڑی کس کی تھی جس پہ جب لال لگام کسی گئی تو پھبتیاں وجود میں آئیں۔ ایک خیال سا آتا ہے کہ ان عمر رسیدہ مردوں کو کیا کہیں گے جن کے خضاب لگے بالوں کی جڑوں میں سفیدی جھانک رہی ہو، اعضا کی کمزوری کے لیے حکیم بنگالی کی دی گئی سلاجیت پسوائی جا رہی ہو اور ایک دو تین کہتے ہی ہانپنے لگیں، اور پھر بھی دوسری تیسری شادی کے خواب انہیں نچلا بیٹھنے نہ دیں۔

بوڑھا گھوڑا، لال لگام!

(دلہن کا لال آنچل اس عمر میں لگام ہی کہلائے گا)

Check Also

Asad Muhammad Khan

By Rauf Klasra