Ustani Tahira
استانی طاہرہ کی کہانی
میڈیکل کالج میں داخلے کی درخواست لاہور بھیجی جا چکی ہے۔ راوی چین ہی چین لکھتا ہے۔ لیکن یہ چین ان محترمہ کو پسند نہیں جو بے چینی سے انگلیوں پر دن گن رہی ہیں۔ کب آئے گا جواب؟ کب فہرست لگے گی؟ کب پتہ چلے گا کہ کہ کونسا کالج؟
انٹرنیٹ اور فون کا زمانہ تو ہے نہیں۔ ساری کتابیں پڑھی جا چکی ہیں۔ ٹی وی صرف شام کو چلتا ہے۔ کوکنگ سیکھنے کا نہ بیٹی کو شوق ہے اور نہ ماں کو سکھانے کا۔ دوپٹے پینٹ کیے جا چکے ہیں۔ بلاک پرنٹنگ سیکھی جا چکی ہے۔
اب کیا کریں؟ زکوٹا جن کا زمانہ تو تھا نہیں کہ کہتے کیا کریں؟ کس کو کھائیں؟
اخبار پڑھنے کا شوق اس قدر تھا کہ ضرورت رشتہ کے اشتہار بھی پڑھ لیے جاتے اگر چہ ایسا کوئی شوق نہیں تھا۔ پڑھتے پڑھتے ایک دن ایک اشتہار نے توجہ مبذول کروائی، پرائمری سکول میں ٹیچرز کی ضرورت ہے۔ امیدوار کی تعلیمی کوالیفیکیشن بی اے ہونی چاہیے۔ تنخواہ پرکشش۔
ایڈریس ہمارے گھر سے زیادہ دور نہیں تھا۔ سو پڑھ کر اچھلنا لازمی تھا۔ جونہی اس اشتہار کے متعلق گھر میں اعلان کیا، سب نے حیران ہو کر دیکھا۔
تم نوکری کرو گی؟ پڑھاؤ گی؟ مگر تم تو ڈاکٹر بننے جارہی ہو!
ہاں، چونکہ ابھی داخلے میں دیر ہے سو کیوں نہ اس عرصے میں نوکری کی جائے۔ جو تنخواہ ملے گی اس کی کچھ شاپنگ ہی ہو جائے گی۔ ہم نے کندھے اچکا کر کہا۔
اجازت وغیرہ کا تو کوئی مسلہ تھا نہیں سو اگلے دن ہی میٹرک اور ایف ایس سی کی سندیں اٹھا کر سکول کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔
ایک چھوٹی سی بلڈنگ، چھ کمرے۔
چھوٹے چھوٹے بچے بچیاں، ہر کمرے میں ایک استانی، کمروں کے بیچ میں صحن، ایک طرف ایک چھوٹا سا دفتر اور اس میں بیٹھے باریش ہیڈ ماسٹر، عمر یہی کوئی پینتیس اٹھتیس برس!
ہیڈ ماسٹر صاحب نے عینک کے پیچھے سے ہمیں گھورا اور کافی دیر گھورتے رہے۔
آپ یہ نوکری کیوں کرنا چاہتی ہیں؟
فارغ ہوں بالکل، ہمارا جواب۔
کیا آگے پڑھنے کا ارادہ نہیں؟
ڈاکٹری میں داخلے کا فارم بھر کر بھیجا ہوا ہے۔۔ ہم نے کندھے اچکا کر جواب دیا۔
وہ سنتے ہی اچھلے، پھر یہ نوکری؟
میں نے کہا نا، فارغ ہوں، سوچا سکول میں ٹیچر بننے کا تجربہ کر لوں۔
وہ منہ کھولے کافی دیر ہمیں دیکھتے رہے۔ ان کی سمجھ سے باہر تھا کہ یہ لڑکی جو میڈیکل کالج کی تیاریوں میں ہے، اس چھوٹے سے سکول تک کیوں آ پہنچی ہے؟
کافی دیر سوچنے کے بعد کہنے لگے، آپ کل تشریف لائیے، ہم سکول ڈائریکٹر کے ساتھ آپ کا انٹرویو کروائیں گے۔
ٹھیک ہے، کہتے ہوئے ہم دفتر سے نکلے اور لوٹ کر بدھو گھر کو آئے۔
امی نے آٹا گوندھتے ہوئے ہمیں دیکھا اور اسی میں مگن رہیں۔ جانتی تھیں کہ بیٹی سرپھری سی ہے، جس کام کے پیچھے پڑتی ہے، کرکے ہی دم لیتی ہے۔
دوسرے دن ہم پھر روانہ ہوئے۔ آج دفتر میں ڈائریکٹر صاحب ہمارے منتظر تھے۔ سر پر عمامہ، باریش اور رعب دار شخصیت۔ انہوں نے ہمیں حیرت سے دیکھا، یہ چونگ گم کھاتی، پرس جھلاتی، مسکراتے ہوئے تیز تیز باتیں کرتی ہوئی لڑکی اس سکول کی ٹیچر بنے گی؟ کیا سوجھی اسے؟
یہی کچھ پوچھا گیا اور اس کا جواب ہم نے وہی دیا جو پہلے دے چکے تھے۔
لیکن آپ کے پاس ٹیچرز ٹریننگ سرٹیفکیٹ یا کوئی تجربہ تو ہے نہیں؟
تجربہ تب حاصل ہوتا ہے جب وہ کام کیا جائے۔ رہا ٹیچرز ٹریننگ سرٹیفکیٹ تو ظاہر ہے کہ نہیں ہے لیکن ہمیں امید ہے کہ بہت سوں سے اچھا پڑھائیں گے۔
اس بات پہ انہوں نے بھنویں سکیڑتے ہوئے ہمیں بغور دیکھا۔ ماتھے پہ دو سلوٹیں بھی تھیں۔
خیر آخری سوال یہ تھا کہ تنخواہ کتنی؟
جتنی آپ دوسروں کو دیتے ہیں، ہمارا جواب۔
دیکھیے یہ لوئر مڈل کلاس علاقہ ہے۔ بچوں کی فیس بہت کم رکھی گئی ہے۔ بی اے پاس ٹیچرز کو ہم تین ساڑھے تین سو کی رینج میں دیتے ہیں۔ آپ کو ڈھائی سو دیں گے۔
ہیں، ڈھائی سو، یعنی روز کے دس روپے بھی نہیں۔۔ ہم نے تیزی سے حساب کتاب کیا۔
دیکھیے مانا کہ ہم بی اے پاس نہیں ہیں اور یہ بھی مانا کہ ٹریننگ سرٹیفکیٹ بھی نہیں ہے لیکن ایک بات ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ کی بہت سی بی اے پاس ٹیچرز سے ہم زیادہ جانتے ہوں گے۔ دوسری بات یہ کہ ہم یہ کام کسی مجبوری میں نہیں بلکہ شوق سے کرنا چاہتے ہیں سو ہمارا خیال یہ ہے کہ ہماری Input زیادہ ہوگی۔
خیر جناب اس تقریر کا یہ فائدہ ہوا کہ ہماری تنخواہ مقرر ہوئی دو پچاسی روپے۔ سن تھا انیس سو تراسی اور مستقبل کی ڈاکٹر طاہرہ بنی استانی طاہرہ۔
کبھی کبھار ہم بچوں سے کہتے ہیں، بھئی تم لوگوں کو بیچلرز کرنے کے بعد نوکری کا آئیڈیا امریکن یونیورسٹی نے دیا جو ایک سال کی نوکری کا ویزا اشو کرکے یہ ٹارگٹ سیٹ کرتی ہے۔ ہم نے یہ کام انیس سو تراسی میں بنا کسی رہنمائی کے کر لیا اور تیس دن بچوں کو پڑھانے کے بعد جب دو سو پچاسی روپے ہاتھ میں آئے تو لطف ہی آگیا۔
ہم نے سکول میں آخری دن تک پڑھایا۔ آخری دن کونسا تھا؟ اس کہانی کے لیے انتظار کیجیے۔