Ustani Tahira Ki Kahani
استانی طاہرہ کی کہانی
سکول میں پہلا دن ہمارے لیے تو دل چسپ تھا ہی، بچوں اور دوسری ٹیچرز کے لیے بھی انوکھا تھا۔ ٹیچرز انٹرویو کرتی رہیں کہ اس لڑکی پہ کیا بپتا آن پڑی جو اس طرف آ نکلی اور مختلف کلاسوں کے بچے بچیاں شرما شرما کر ہمیں دیکھتے رہے۔
ہمیں دوسری جماعت کا کلاس ٹیچر لگایا گیا اور ساتھ میں دو اور کلاسوں کی انگریزی بھی پکڑا دی گئی۔ گو کہ ٹیچنگ کا کوئی تجربہ نہیں تھا لیکن پچھلے بارہ برس سے سٹوڈنٹ تو تھے ہی، سو جو کچھ ہمیں زچ کرتا تھا، اسے نہ کرنے کا پروگرام بنایا گیا۔
ایجنڈے میں سب سے پہلا ٹارگٹ ہوم ورک تھا۔ سکول کے دنوں میں ہوم ورک ہماری دکھتی رگ تھا۔ سوچیے کس قدر بورنگ بات ہے کہ شام کو کھیلنے یا کتابیں پڑھنے کی بجائے بستہ کھول کر کاپیاں کالی کی جائیں۔ سو سکول کے ان تمام برسوں میں ہم نے یہ کمال کیا کہ شاز ونادر ہی کبھی ہوم ورک کیا۔ امی پوچھتیں کہ ہوم ورک کر لیا تو ہم سر ہلا کر کتاب میں گم ہو جاتے۔
سکول میں ہماری کاپی خالی دیکھ کر ٹیچر سر پکڑ لیتیں مگر سزا کسے دیتیں؟ اس لڑکی کو جو ہر کلاس میں فرسٹ آتی تھی، سکالر شپ ہولڈر تھی، جو سوال پوچھو فراٹے دار جواب دیتی تھی، دوسرے سکولوں سے ڈھیروں انعام جیت کر لاتی تھی۔ سو ٹیچرز سوچتے ہی رہ جاتے کہ اس کو کیا کہیں؟ دوسرے الفاظ میں آپ ہمیں سکول کا لاڈلا یا منہ چڑھا سٹوڈنٹ کہہ سکتے تھے۔
اب ہم یہی کچھ ہمارے ایجنڈے پہ تھا۔ ننھے منوں کو کلاس میں جتنا جی چاہے پڑھاؤ لیکن گھر جا کر کچھ اور کرنے دو بھئی۔
دوسری بات جو ہمیں ناپسند تھی کہ ٹیچرز بلیک بورڈ پہ لکھتے جائیں اور سٹوڈنٹس بنا سوچے سمجھے پہلے کاپی پہ نقل کریں اور اس کو رٹ کر یاد کر لیں۔ یہ حافظے کا امتحان تو ہو سکتا ہے لیکن کسی کو سمجھ آئی کہ نہیں، کوئی نہیں جانتا۔
تیسری بات، ہمیں لگتا تھا کہ جو ٹیچر زیادہ باتیں کرتے ہیں اور استاد شاگرد کے روایتی رشتے پر یقین نہیں رکھتے، وہاں پڑھائی زیادہ اچھی ہوتی ہے۔
سو یہی کیا ہم نے!
کیا نام ہے آپ کا؟
ذیشان۔
اچھا ذیشان، بلیک بورڈ پر سی سے بننے والے الفاظ لکھو۔
بچہ ڈرتے ڈرتے چاک پکڑتا اور بلیک بورڈ پر سوچ سوچ کر لفظ لکھنا شروع کرتا، کیٹ، کار، کی۔
دوسرا بچہ آتا اور ان الفاظ کو اپنے جملوں میں استعمال کرتا۔۔ سپیلنگ کی غلطی ہو یا جملے کی ساخت کی، ڈانٹ ڈپٹ قطعی طور پہ سلیبس میں نہیں تھی۔
شروع میں بچے ڈرے، گھبرائے، شرمائے، ہچکچائے مگر پھر انہیں یہ سب اچھا لگنا شروع ہوگیا کہ وہ سب Active learner تھے اور یوں پرابلم بیسڈ لرننگ کو جانے بغیر ہم نے اس کا ابتدا کی۔ بہت برسوں بعد جب ماسٹرخت یونی ورسٹی ہالینڈ پہنچے اور انہوں نے interactive teaching کے فوائد بیان کیے تو ہم نے سوچا، ہم اس تجربے سے گزر چکے ہیں۔
اگلا امتحان ہوم ورک تھا۔ سب ٹیچرز ڈھیروں ڈھیر کام سکول ڈائری میں لکھواتے جو بچوں نے شام کو گھر میں کرنا ہوتا۔ ہمارے خیال میں یہ بچوں کے بچپن سے ناانصافی تھی۔ چھ سات گھنٹے سکول میں پڑھنے کے بعد ایسا کیا رہ جاتا ہے۔ جس کے لیے شام کو بھی بستہ کھولا جائے؟ بہت سے بچوں کا اسی لیے چھوٹی عمر میں ہی پڑھائی سے جی اچاٹ ہو جاتا ہے۔ ہم نے تو خیر اپنے سکول میں ہوم ورک نہ کرکے بغاوت کی تھی مگر بہت برسوں کے بعد جب ہمارے بچے انٹرنیشنل سکولز میں پڑھنے لگے، شام کو اچھل کود میں مصروف ہوتے اور ہوم ورک کے نام پہ سکول ڈائری خالی ہوتی تو ہم دل ہی دل میں سوچتے کہ شکر ہے ہم نے ہوم ورک کو اپنا بچپن چھیننے نہیں دیا۔
تو جناب ہم نے اپنی کلاس میں اعلان کیا کہ کوئی ہوم ورک نہیں ملے گا، جو کچھ بھی کرنا ہوگا ہم کلاس میں کریں گے، جا عیش کر کاکا۔ بچوں کے چہروں پہ ابھرنے والی حیرت اور پریشانی خوب یاد ہے۔ ہمیں لیکن اس ہوم ورک نامی بلا نے ہمیں زچ یوں کیا کہ ایک ہفتے بعد ہی گھروں سے شکایات آنی شروع ہوگئیں کہ نئی ٹیچر ہوم ورک نہیں دیتیں۔ ہوم ورک ہونے نہ ہونے کی جنگ مشکل تھی جو سکول ایڈمنسٹریشن سے بہت سے مباحث کے بعد ہم نے جیتی۔
پڑھانے کے ساتھ ساتھ ہم بچوں سے چھوٹی چھوٹی باتیں کرتے، سڑک کیسے پار کرنی چاہئے، قطار بنانے کا فائدہ کیا ہے؟ کھیل کود میں کیوں حصہ لینا چاہئے؟ کتابیں کیوں پڑھنی چاہییں؟ دانت کب کب صاف کرنے ہیں؟ کھانا منہ بند کرکے کھانا ہے، باتھ روم کیسے استعمال کرنا چاہئے؟ بڑے ہو کر کیا بننے کا ارادہ ہے اور کیوں؟
غیر نصابی سرگرمیاں کروانے میں بھی ہمارا حصہ رہا کہ ہمیں تو اپنے سکول کے دور میں مزا ہی انہی میں آتا تھا۔ بزم ادب اور فینسی ڈریس شو کے ذریعے بہت سے چھوٹے بچوں کو ہم نے روایتی پڑھائی سے باہر کی دنیا روشناس کروائی۔ جوگی، اندھا فقیر اور بچی، مہاتما بدھ، مداری اور بندر، علاقائی ملبوسات، ترانے اور نہ جانے کیا کچھ۔ اس پچ پہ ہم جتنا کھیل سکتے تھے، اس سے زیادہ کھیل کر آؤٹ ہوئے اور زندگی کی البم میں اٹھارہویں برس کی بہت سی یادیں مشاہدات اور تجربات سج گئے۔
یونہی سکول آتے جاتے آٹھ ماہ گزر گئے اور پھر کُوچ کا طبل بج گیا۔
اس کا قصہ اگلی بار!