Friday, 18 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Tahira Kazmi
  4. Sone Di Taveetri

Sone Di Taveetri

سونے دی تویتڑی

سونے کے زیورات کے نرخ بڑھتے جاتے ہیں اور ہماری یادوں کی کھڑکیاں کھلتی جاتی ہیں کہ کب ہوئی اس قیامت سے پہلی ملاقات۔

ہوش سنبھالا تو امی کے ہاتھ میں نہ چوڑیاں تھیں نہ کوئی انگوٹھی۔ گلے میں کوئی چین نہ کانوں میں بالیاں۔ کسی شادی پہ جانے لگتیں، منہ ہاتھ دھو کر خوبصورت سا جوڑا پہنتیں، گھنے بالوں کا کس کر جوڑا بناتیں، منہ پہ تبت سنو ملتیں اور روانہ ہو جاتیں۔ سونے کے زیورات تو تھے ہی نہیں، کانچ کی چوڑیاں یا چاندی کا زیور تک نہ پہنتیں۔ ہمیں بہت حیرت ہوتی کہ کس طرح کی عورت ہیں یہ؟

ہم فرسٹ ائیر میں تھے تو آپا کی شادی طے ہوگئی۔ آپا کی شادی کی تیاریوں میں جب زیور کی بات ہوئی تو امی ابا کچھ بوکھلا سے گئے۔ وجہ زیور کی قیمت نہیں بلکہ خریداری تھی۔ ہم جو گھر کے شرلاک ہومز سمجھے جاتے تھے، کچھ تفتیش کے بعد پتہ چلایا کہ دونوں کبھی زیور خریدنے بازار گئے ہی نہیں۔ ہائے بے چارے ہمارے امی ابا۔

شادی کے موقع پہ امی کو جو زیور ملا وہ نانی اور دادی کی کاوش تھا۔ اس میں سے کچھ چوری کی وارداتوں میں کام آیا اور کچھ ہماری امی نے دان کر دیا۔ بعد میں ہماری امی نے نہ کبھی ابا سے فرمائش کی اور نہ کبھی ابا نے سوچا کہ امی کو کوئی زیور دلوائیں۔ عجیب ہی میاں بیوی تھے۔

گھر میں پہلی بیٹی کی شادی ہو رہی تھی تو زیور خریدنے سنار کے پاس تو جانا تھا۔ امی نے آپا کی سہیلی کی امی سے بات کی جو شوقین مزاج تھیں اور خبر رکھتی تھیں کہ کس سنار کے پاس جانا چاہئے۔

یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کہ جس دن وہ لوگ بازار جانے لگے ہم پہلے سے تیار بیٹھے تھے۔ ہمیں کسی بھی کام سے روکنا تقریباً ناممکن سمجھا جاتا تھا اس لئے کسی نے بھی کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا۔

آنٹی نے تجویز کیا کہ ہمیں پٹیالہ جیولرز پہ جانا ہوگا۔ پٹیالہ جیولرز کی ایک دکان مری روڈ پہ تھی اور ایک صرافہ بازار میں۔ صرافہ بازار والی قدیم تصور کی جاتی تھی سو وہیں جانا تھا ہمیں۔ لیجیے جناب سواری چلی، پہنچے راجہ بازار اور پھر صرافہ بازار۔

پٹیالہ جیولرز میں داخل ہوئے، رش زیادہ تھا سو کچھ دیر پیچھے بیٹھ کر انتظار کرنا پڑا۔ جب باری آئی تو ہم سامنے والی کرسیوں پر براجمان ہوئے۔ سامنے پان چباتے گھاگ قسم کے سیلز مین بیٹھے تھے جنہوں نے فورا پوچھا، چائے؟ آنٹی نے کہا ہاں۔ لیجیے چائے آگئی اور ساتھ ساتھ مختلف زیورات کے ڈبے کھولے جانے لگے۔

یہ دیکھیے، یہ جڑاؤ موتیوں والا سیٹ ہے، یہ میناکاری، یہ اینٹیک سٹائل، یہ کندن۔

آپا ہماری سیدھی سادھی، امی کی طرح نہ مہندی کی شوقین، نہ زیور کی۔۔ کچھ بوکھلا سی گئیں۔ کیا لوں؟ کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔ آپا کی سہیلی اور آنٹی مشورے دینے لگیں۔ سیلز مین بھی ساتھ ساتھ لقمہ دیتا جائے، یہ دیکھیے، یہ آج کل کا فیشن ہے، یہ آپ کو اچھا لگے گا۔

اس بحث کی ایکٹو ممبران آپس میں الجھ رہی تھیں اور ہم بیٹھے سوچ رہے تھے لو یہ کیا مشکل ہے، پہن کر دیکھو گلے میں، کانوں میں اور پھر دیکھو آئینہ۔ جب وہ بول اٹھے کہ واہ۔۔ بس وہی لے لو۔ اور پھر ہم نے یہی کیا۔ آپا چادر پہنتیں تھیں سو انہیں پہننا مشکل لگ رہا تھا سو ہم نے فورا اپنی خدمات پیش کیں۔ یہاں بتاتے چلیں کہ امی اور آپا کے برعکس ہمیں زیور پہننے کا بہت شوق تھا۔ کہاں سے آیا یہ شوق، نہیں جانتے مگر تھا۔ اور اس قدر تھا کہ جب ہمارے ابا حج پہ جانے لگے تو ہماری فرمائش یہ تھی کہ وہاں سے ہمارے لیے ٹیکہ اور نتھ لائے جائیں۔ یاد رہے کہ اس فرمائش کے وقت ہماری عمر پانچ یا چھ برس تھی۔

لیجیے جناب ہم نے زیور پہننے شروع کیے۔ ہر سیٹ میں سے پہلے گلے کا ہار پہنتے، پھر جھمکے، انگوٹھی کی باری آخر میں۔ پھر اٹھلا کر کبھی آپا کو دیکھتے کبھی آئینے کو۔۔ آئینے میں نظر آتی پندہ سولہ سالہ لڑکی اور سونے کے جھلملاتے زیور۔۔ نہیں بھولتا وہ سب!

خیر آپا کو ایک سیٹ پسند آگیا۔ گلوبند اور جھمکے۔ اب مول تول شروع ہوا۔ آپا کو تو کوئی تجربہ ہی نہیں تھا سو آنٹی ہی اس بات چیت میں ایکٹو کردار تھیں۔ سیلز مین نے وزن کیا پھر کیلکولیٹر پہ کچھ مول تول کیا اور پھر بل پیش کر دیا۔

اس سے پہلے کہ رقم ادا کی جاتی ہم نے بل پکڑ لیا اور اسے پڑھنے کی کوشش کی۔ بل کچھ اس طرح کا تھا۔

گانی سیٹ وزن -

ریٹ سونا / تولہ -

گانی سیٹ قیمت سونا۔

بنوائی۔

پالش۔

ہم نے یہ سب پڑھا اور پڑھنے کے بعد سیلز مین کا تفصیلی انٹرویو کیا۔ بنوائی کس حساب سے چارج کی گئی ہے اور پالش کیا ہے؟

جب سیلز مین اچھی طرح زچ ہو چکا تب ہم نے کیلکیولیٹر اپنی طرف گھسیٹا اور وہ ریٹ جو اس روز کے حساب میں دیوار پہ لگی سلیٹ پہ لکھا تھا اسے سیٹ کے وزن سے ضرب دی۔ اب مرحلہ تھا بنوائی کے اخراجات میں کمی کرنے کا۔ اپنے تقریری فن کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے ہم نے کوشش کی کہ بنوائی کے اخراجات ہماری مرضی کے مطابق ہو سکیں۔

اگلا مرحلہ تھا پالش کا۔۔ یہ پالش کیا بلا ہے؟ ہم بڑبڑائے۔ ظاہر ہے اس سوال کا جواب سیلز مین کی طرف سے ہی آنا تھا جو اب تک انتہائی کنفیوزڈ ہو چکا تھا۔ بہر حال علم ہوا کہ ہر تولے پہ ایک ڈیڑھ رتی سونے کی قیمت بڑھائی جاتی ہے جو سونے کی بنوائی کے دوران ضائع ہونے والے سونے کا تخمینہ ہے۔

لیکن سونا ضائع کیسے ہوگا؟ ہمارا اگلا سوال۔۔ ہم نے تو سنا ہے کہ سونے کے کارخانے میں راکھ تک نہیں پھینکی جاتی کہ اس میں سونے کے ذرات پائے جاتے ہیں۔

سیلز مین بے چارہ چپ چاپ ہماری شکل دیکھتا رہا۔ آخر میں اسے مدد کے لیے کیش صندوقچی پہ بیٹھے بابا جی کے پاس جانا پڑا جو شاید دکان کے مالک تھے۔

اتنی ردوکد کے بعد جب سیٹ کی قیمت ادا کی گئی تو وہ اس سے کہیں کم تھی جو ابتدائی طور پہ بل میں لکھی گئی تھی۔

گھر واپس آتے ہوئے آنٹی پریشان تھیں، آپا اور ان کی سہیلی حیران اور ہم، ہم اس بات پہ انتہائی خوش کہ ہم نے اس دن پہلی بار صرافہ بازار جا کر کامیابی سے شاپنگ کی تھی۔

بعد کے برسوں کی کہانی بھی سنائیں گے آپ کو!

Check Also

Who Are You

By Toqeer Bhumla