Shah Dane Ke Bagh Mein Chekhov Aur Olga Ka Raqs
شاہ دانے کے باغ میں چیخوف اور اولگا کا رقص
"ایک ہاتھ میں نشتر اور دوسرے میں قلم، یہ نباہ کیسے چلتا ہے بھئی"۔
"جناب ہم تو طفل مکتب ہیں ابھی، جمعہ جمعہ آٹھ دن گزرے وارد ہوئے، پاؤں پاؤں چلنا سیکھ رہے ہیں۔ البتہ تاریخ ادب بھری پڑی ہے ایسے ڈاکٹروں سے جنہوں نے قلم اور نشتر کے رشتے ایک ساتھ نبھائے اور کیا خوب نبھائے"۔
دور کیوں جائیے، اپنے ڈاکٹر انور سجاد صاحب اگر ایک طرف چونا منڈی میں مریضوں کی نبض ٹٹولتے تو دوسری طرف اپنی تحریر، اداکاری، مصوری اور رقص سے لاکھوں چاہنے والوں کی دل کی دھڑکن بن جاتے۔ ڈاکٹر شفیق الرحمان طب آزمائی کرتے کرتے تھک جاتے تو حماقتیں اور مزید حماقتیں سرزد ہونے لگتیں۔
بین الاقوامی ادب کے افق پہ جگمگاتے ستاروں میں روسی ادیب چیخوف، سمرسٹ ماہم، خالد حسینی اور نوال السعداوی بھی پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں۔
"طب میری قانونی بیوی اور ادب میری محبوبہ ہے"کہنے والے شہرہ آفاق ادیب چیخوف (1904-1860) کا آج جنم دن ہے۔
"میں اپنی زندگی پہ ماتم کناں ہوں"۔
"کوئی بھی بے وقوف کسی بھی طوفان کا سامنا کر سکتا ہے۔ ہاں، روزمرہ کے لمحوں کا عذاب جان لیوا ہوتا ہے"۔
"فلاسفرز اور دانشمندوں کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ لاتعلق ہوتے ہیں۔ بالکل غلط، لاتعلقی روح کا مفلوج پن ہے، وقت سے پہلے واقع ہونے والی موت"۔
"ہمیں عادت ہو چلی ہے امیدیں باندھنے کی۔ سہانا موسم، منافع دیتی فصل، امیر ہونے کی یا بڑا افسر بننے کی آرزو۔ میں نے کبھی کسی کو دانش مند بننے کی آرزو کرتے نہیں دیکھا"۔
"اگر چاہتے ہو کہ تمہارا آرٹ منہ بولتی تصویر بن جائے تو اپنی زندگی میں رنگ بھرو"۔
"میں سوچتا رہتا ہوں، کیا زبردست ہو اگر سینے میں رکھا وزنی پتھر سے بنا دل آنسو بن کے چھاتی سے بہہ نکلے"۔
"مشکل دنوں میں یہ جانا جاتا ہے کہ اپنے خیالات اور احساسات کو اپنے قابو میں رکھنا کیسا کھٹن ہوا کرتا ہے"۔
"میں تمہارے ساتھ ہوں اور پھر بھی میرا انتظار کرتا نامکمل ناول مجھے یاد رہتا ہے"۔
چیخوف روسی ادب کا وہ مایہ ناز ڈرامہ نگار اور کہانی کار جس نے چھوٹے چھوٹے بے رنگ اشاروں سے ادب میں زندگی کی دھڑکن، اندیشوں اور خوابوں کی تصویر بنانے کی روایت شروع کی۔ ماسکو تھیٹر کی نشاۃ ثانیہ میں حصہ لیا۔ مریضوں میں شفا بانٹی اور خود ٹی بی کاشکار ہو کے صرف چوالیس برس کی عمر میں موت کو گلے لگا لیا۔
چیخوف کا بچپن ایک سنکی، جھکی اور بلاوجہ ڈانٹ پھٹکار کرنے والے باپ کے زیر سایہ گزرا "میرے باپ کے آمرانہ مزاج کے متعلق سوچنے سے بھی خوف آتا ہے جس نے میرا بچپن مسخ کر دیا۔ اس خوف اور اذیت کو کیسے بیان کروں جب میرا باپ کھانے میں نمک کی کمی بیشی پہ ماں پہ طنز کرتے ہوئے ہوئے اسے بےوقوف عورت کہتا"۔
باپ کے قلاش ہونے کے بعد چیخوف نے اپنی پڑھائی کا خرچ اور خاندان کی مالی اعانت کے لئے بہت چھوٹی عمر سے کمانا شروع کیا۔ گھر کا چولہا جھونکنے کی مشقت میں کہانیاں لکھنا بھی شامل تھا۔ ، وہ قلمی نام سے روزانہ مختصر کہانیاں اور ماسکو کی روز مرہزندگی کے واقعات لکھتا۔ اس زمانے میں اس کی تحریروں میں شب و روز کی تلخی چھپائے نہیں چھپتی تھی۔
1884ء میں ڈاکٹر تو وہ بن گیا اور اس نے ہمیشہ اسے اپنا بنیادی پیشہ جانا مگر مالی حالت میں کچھ تبدیلی نہ آ سکی کہ اس نے زیادہ تر غریب لوگوں کا مفت علاج کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا۔
چیخوف نے اپنی کہانیاں ان تمام مریضوں کی زندگی سے اخذ کیں جو اس کےپاس دور دراز سے لائے جاتے۔ نحیف و لاغر مریضوں کے پاس وہ خود فاصلہ طے کرکے جاتا۔ اس کا وقت تو خرچ ہوتا لیکن اسے زندگی کے وہ سب روپ دیکھنے کو مل جاتے جنہیں وہ اپنے الفاظ دے کے صفحہ قرطاس پہ بکھیر دیتا۔ انہی مشاہدات کے دوران اس نے غربت کے مارے کاشتکاروں کی حالت زار پہPeasant لکھ دی اور امیر طبقے پہ کچھ یوں طنز کیا۔
"یہ بالائی طبقے کے لوگ؟ وہی جسمانی گندگی، وہی پوپلے منہ اور وہی مکروہ موت جو کسی بازاری عورت کی قسمت میں لکھی ہوتی ہے"۔
ماسکو تھیٹر میں اپنا ڈرامے کا سکرپٹ پڑھتے ہوئے۔۔ اولگا انتہائی بائیں طرف
اسی اثنا میں چیخوف نے ڈرامہ نگاری کی ٹھانی۔ اس کے چار ڈراموں The sea gull, Uncle Vanya, The three sisters, The cherry Orchard روسی تھیٹر کی دنیا میں انقلاب کا باعث بنے۔ چیخوف نے تھیٹر کا روایتی انداز چھوڑ کے اصل زندگی اور انسانی حقیقتوں کو ڈرامے میں پرو کے سامعین کے سامنے لا کھڑاکیا۔ اس نے دنیا کو علی الاعلان بتایا کہ کسی بھی فنکار کا کام سوال پوچھنا ہے، جواب ڈھونڈنا نہیں۔
چیخوف کی ازدواجی زندگی کی مدت صرف تین سال رہی کہ پھر موت نے آلیا۔ چیخوف شادی کرنے سے گھبراتا تھا، وہ دوست کو لکھتا ہے۔
"میں شادی کچھ شرائط پہ کرنا چاہوں گا۔ ہر چیز ویسی ہی رہنی چاہئے جیسی کہ ہے، وہ ماسکو میں رہے اور میں شہر سے دور۔ میں اس سے ملنے بھی آؤں گا اوراچھا شوہر بننے کا بھی وعدہ کروں گا لیکن مجھے ایسی بیوی چاہیے جو چاند کی طرح میرے آسمان پہ روز روشنی نہ بکھیرے"۔
چیخوف کی آرزو کے مطابق 1901ء میں ڈرامہ آرٹسٹ (Olga Knipper) سے شادی اسی طرح سے ہوئی۔ اولگا ماسکو میں ڈراموں میں اداکاری کرتی رہی اور چیخوف یالٹا میں قیام پذیر رہا۔ چیخوف نے اولگا کو جدائی اور قربت کے امتزاج میں گندھے خط لکھے جو ادب کا شاہکار مانے گئے۔
چیخوف کی صحت اوائل عمری سے ہی اچھی نہ رہی اور ٹی بی نے اسے مزید لاغر کر دیا۔ مریضوں کے دکھ دیکھتے سنتے، ادب تخلیق کرتے اور اپنی بیماری سےجنگ کرتے چیخوف نے صرف چوالیس برس کی عمر میں اولگا کی بانہوں میں دنیا کو خدا حافظ کہا۔
اولگا نے اس کی موت کا منظر بیان کرتے ہوئے لکھا
انتوف (چیخوف) غیرمعمولی طریقے سے سیدھا ہو کے بیٹھ گیا۔ اور خاصی بلند آواز میں جرمن زبان میں کہا Ich sterbe (میں مر رہا ہوں) حالانکہ اس کی جرمن بہت اچھی نہیں تھی۔ ڈاکٹر نے اسے تسلی دیتے ہوئے کافور کا ٹیکہ لگایا اور کسی سے شیمپین کا ایک گلاس لانے کے لئے کہا۔ انتون نے شیمپین کا بھرا ہوا گلاس تھاما، میری طرف دیکھ کے مسکرایا اور کہا، ایک مدت سے میں نے شیمپین نہیں پی تھی۔ اور اس نے سارا گلاس پی لیا اور بائیں کروٹ لے کر خاموشی سے لیٹ گیا۔ میں گھبرا کر اس کی طرف گئی اور جھک کر اسے پکارنے کی کوشش کی۔ اس نے سانس لینا بند کر دیا تھا اور کسی بچے کی طرح سکون سے سو رہا تھا
چیخوف نے تمام عمر طب اور ادب سے ایک جیسی محبت کی، ایک جیسی وابستگی رکھی اور دونوں جگہ اپنی انفرادیت کی مثال قائم کی جیسے کوئی رقاص جسم اور روح کا تال میل سراور ساز سے ایسا جوڑ دے کہ دیکھنے والوں کا دل دھڑکنا بھول جائے۔
چیخوف تمہارے الفاظ سے پھوٹنے والی روشنی آج بھی آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے، تمہاری درد مندی انسانی نسلوں کا سرمایہ بن چکی۔ تمہیں فارسی کا شاعر خیام یاد ہے جو اپنے دوست نظام الملک طوسی کے عطا کردہ باغ میں شراب کی صراحی اور مہ وشوں کی صحبت میں زندہ و جاوید رباعیات لکھتا تھا۔ مگر چیخوف تمہیں کسی نظام الملک کی بخشندہ جاگیر اور باندیوں کے جھرمٹ کی ضرورت نہیں۔ تم نے اپنے لئے شاہ دانے کا باغ (Cherry Orchard) خود تخلیق کیا تھا۔
آج اگر تم زندہ ہوتے تو تمہاری عمر ٹھیک 120 برس ہوتی۔ شاہ دانے کے اسی باغ میں تمہاری سال گرہ منائی جاتی جہاں تمہاری دل ربا اولگا روسی ساز بیلالائیکا پر دھنیں بکھیرتی۔ تین بہنیں تمہارے لئے کیک لے کر آتیں۔ انکل وانیا روسی واڈکا کے خم پہ خم لنڈھاتے۔ وارڈ نمبر چھ کے مریض تمہارے لئے بہت سے پھول لاتے۔ مگر یہ کہ تم بہت پہلے رخصت ہو چکے۔ تمہارا جنم دن اب ان کروڑوں بے چہرہ پڑھنے والوں کی امانت ہے جن کے دکھ اور خوشیاں تمہارے افسانوں اور ڈراموں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔