Operation Pe Operation
آپریشن پہ آپریشن
وہ رات اس گھر کے باسیوں کے لیے قیامت تھی۔ ابا مصلے پر بیٹھے تھے اور امی نومولود کو سنبھال رہی تھیں۔ گھر کی بڑی بیٹی زہرہ نرسنگ ہوم کی آپریشن ٹیبل پر لیٹی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی تھی۔ آپریشن تھیٹر سے باہر داماد اور منجھلا بیٹا بدحواس کھڑے تھے اور زہرہ نرسنگ ہوم کے ایک چھوٹے کمرے میں بیٹھی اس لڑکی کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ماجرا کیا ہے؟
زچگی اور اس سے جڑی مشکلات کے متعلق کوئی کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔
آپریشن تھیٹر کا دروازہ ہر تھوڑی دیر کے بعد کھلتا اور لواحقین کو خون کا انتظام کرنے کے لیے کہا جاتا۔ داماد اور بھائی باری باری اپنا خون دے چکے تھے، مزید ڈونرز کے لیے کیا کریں؟
آپ یہیں رکیں، میں پی سی او سے اپنے دوستوں کو فون کرتا ہوں۔۔ بیس اکیس برس کے پھرتیلے لڑکے نے بہنوئی سے کہا جو گھر والوں میں دوستوں کی فوج رکھنے کے ضمن میں بدنام تھا۔
ایک دو کو فون کیا اور کچھ ہی دیر میں آپریشن تھیٹر کے باہر دوستوں کی لائن لگ گئی جو موٹر سائیکلوں پر اُڑتے ہوئے لالکڑتی کے زہرہ نرسنگ ہوم تک پہنچے تھے۔ اس رات پندرہ بوتل خون آپا کو لگایا گیا جو ان ڈونرز کے خون کے بدلے میں ملا۔
پو پھٹ رہی تھی جب آپا آئی سی یو میں شفٹ ہوئیں لیکن ابھی بھی حالت خطرے سے باہر نہیں تھی۔
بہنوئی اور بھائی کو صرف اتنا پتہ چلا تھا کہ چھوٹے آپریشن کے ٹانکے ٹوٹ گئے تھے۔ وہ قطعی نہیں جانتے تھے کہ چھوٹا آپریشن کیا بلا ہے اور ٹانکوں کے ٹوٹنے کا کیا مطلب ہے؟
اس عمر میں بھی گھر کا پردھان منتری بننے کا سودا ہمارے سر میں سمایا رہتا تھا۔ سو صبح جا دھمکے ڈاکٹر کے دفتر میں کہ آخر مسلہ کیا ہے؟ خوبصورت اور سمارٹ لیڈی ڈاکٹر نے ہمیں حیرت سے دیکھا، وہ ذہنی طور پہ تیار تھی کہ کچھ گرگ باراں دیدہ قسم کی عورتیں اور مرد ان کے دفتر پہ الزام نما سوالات کے ساتھ حملہ کریں گے۔ مگر یہاں آئی تو فقط ایک نوعمر لڑکی۔ لیجیے گرگ باراں دیدہ سے داغ دہلوی کا شعر یاد آ گیا۔
میرے رونے پر جو رویا آدمی فہمیدہ ہے
ناصح عاقل پرانا گرگ باراں دیدہ ہے
اب مڑ کر دیکھتے ہیں تو علم ہوتا ہے کہ پڑھے لکھے گھرانے سے تعلق ہونے کے باوجود عورت سے متعلقہ امور میں ہم سب کورے تھے۔ ڈاکٹروں کے علاوہ ان معلومات کی رسائی کسی کی نہیں تھی۔ انٹرنیٹ اور سمارٹ فون تو تھا نہیں کہ گوگل کرو اور کچھ نہ کچھ جان لو۔۔ بہر کیف انہوں نے بھینس کے سامنے بین بجا دی کہ ٹانکے ٹوٹ گئے تو بھینس نے بھی سر جھکا کے مان لیا کہ شاید یہی ہوتاہوگا۔ معلومات میں یہ اضافہ ضرور ہوا کہ بچی صحت مند تھی سو اوزاروں سے نکالنا پڑا تھا۔
ہوتا ہوگا کچھ یونہی، لڑکی نے کندھے اچکا دیے۔
آپا کچھ دن آئی سی یو میں زندگی اور موت کی جنگ لڑتی رہیں اور باہر دروازے پہ بھائی اپنے دوستوں کی فوج لے کر بیٹھا رہا کہ نہ جانے کس وقت کس چیز کی ضرورت پڑ جائے۔ وقت نے ثابت کیا کہ اس کی چھٹی حس غلط نہیں تھی۔
ایک شام آئی سی یو میں غیر معمولی چہل پہل نظر آئی۔ دروازے تیزی سے کھلنے اور بند ہونے لگے، نرسیں ادھر ادھر بھاگنے لگیں، فون کی گھنٹیاں بجنے لگیں تو باہر بیٹھے لواحقین کے چہرے زرد پڑگئے کہ نہ جانے کس کے نصیب میں جدائی کی فصل لکھی جانے والی ہے؟
جب نرس بہنوئی سے دستخط لینے آئی تو علم ہوا کہ برق کا رخ ہمارے آنگن کی طرف ہے۔ آپا پھر زندگی اور موت کی سرحد پہ کھڑی تھیں۔ پوچھنے پر صرف اتنا پتہ چلا کہ ٹانکے پھر سے ٹوٹ گئے ہیں اور بلیڈنگ رک نہیں رہی، کانپتے ہاتھوں سے بہنوئی کے دستخط اور لرزتی ٹانگوں سے بھائی کا بلڈ بینک بھاگنا اس رات کو یاد ہوگا آج تک۔
کئی گھنٹے آپریشن چلتا رہا۔ نہ معلوم کیا ہو رہا تھا؟ آخر بھائی کو اپنا ایک دوست یاد آیا جو پنڈی میڈیکل کالج میں تھرڈ ائیر میں پڑھتا تھا۔ آج ہم جانتے ہیں کہ تھرڈ ائر کے سٹوڈنٹ کو گائنی کے معاملات کا کیا اور کتنا علم ہوگا مگر اندھوں میں کانا راجہ کے مصداق کچھ تو۔ دوست نے آکر فائل سے ہسٹری پڑھی، نرسوں وغیرہ سے کچھ بات چیت کی تو علم ہوا کہ ویجائنا اور پاخانے کی نالی میں شدید انفکشن ہے۔ انفکشن کی وجہ سے ویجائنا اور پاخانے کی نالی گل چکی ہیں سو جہاں ٹانکہ بھرا جائے، ٹوٹ جاتا ہے۔ اب اس مشکل سے نکلنے کے لیے آرمی کے سرجن جنرل، جنرل محمود الحسن کو بلایا گیا ہے۔ اگر ان سے بھی بات نہ بنی تو پھر اللہ حافظ۔
جنرل صاحب سرجنز کی ٹیم کے سربراہ اور مہارت میں شہرت رکھتے تھے۔ زہرہ نرسنگ ہوم سے ان کا تعلق شاید پرائیویٹ پریکٹس کے حوالے سے تھا۔ بہت برسوں بعد جنرل محمود الحسن کے پشاور روڈ پہ بنائے ہوئے حسن کلینک پہ گائناکالوجسٹ کے طور پہ جب ہم نے پریکٹس شروع کی تو جب بھی انہیں دیکھتے، برسوں پہلے کے وہ دن یاد آجاتے۔
قارئین، یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ زہرہ نرسنگ ہوم پرائیویٹ ہسپتال تھا اور روپیہ پانی کی طرح بہہ رہا تھا۔ تنخواہ دار مڈل کلاس خاندان، کیسے اس مشکل سے لڑ رہا تھا یہ امی اور ابا اور بہنوئی کی شکلیں بتاتی تھیں۔ بہنوئی کے والدین دور رہتے تھے لیکن مالی معاملات ہم سے مختلف نہیں تھے۔
آپا کو اس رات بھی ڈھیروں خون چڑھا۔ رات گئے تک آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلتا بند ہوتا رہا۔ پرچیاں لے کر کچھ لڑکے میڈیکل سٹور تک بھاگتے رہے اور کچھ بلڈ بینک جا کر اپنا خون دوست کی آپا کے لیے نکلواتے رہے۔
گھر میں ہمیں صرف اتنا ہی پتہ چلا کہ آپا کا ایک اور آپریشن ہو رہا ہے۔ کیوں؟ کچھ خبر نہیں۔
ہم آپ کو واقعات اس ترتیب سے سنا رہے ہیں جیسے وہ پیش آئے۔
اب تک ہم سب یہی سمجھ سکے تھے کہ آپا کی ڈلیوری اوزاروں سے ہوئی تھی، کہیں اندر بہت سے ٹانکے لگے تھے اور وہ ٹانکے انفکشن کی وجہ سے بار بار اکھڑ جاتے تھے۔