Tuesday, 22 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Tahira Kazmi
  4. Mazloom Kon? Khalil Ur Rehman Ya Amna Arooj?

Mazloom Kon? Khalil Ur Rehman Ya Amna Arooj?

مظلوم کون؟ خلیل الرحمن قمر یا آمنہ عروج؟

اصلیت سے واقف ہوتے ہوئے بھی اگر، مگر، لیکن، چونکہ، پھر بھی، وہ لڑکی۔ کا گیت گانے والوں کو دیکھ کر ہم خود کلامی کرتے ہوئے اپنے آپ سے ایک ہی سوال پوچھتے ہیں۔

"یہ کیسی ہمدردی ہے جو عورت کے خلاف شدید جارحانہ پن، متشدد الفاظ اور اسے ارزاں مخلوق سمجھنے کی رٹ لگائے ہوئے شخص کے لیے اسکے بھائی بندوں کے رگ و پے میں اتر آئی ہے"۔

چونکہ تشخیص کرنے کے مرض میں ہم مبتلا ہیں نہ صرف پیشے کے اعتبار سے بلکہ دائمی مرض بھی یہی ہے سو سوچ بچار کے بعدعلم ہوا کہ معاشرہ "Himpathy" کا شکار ہے۔

صاحبان علم sympathy سمپتھی اور empathy ایمپیتھی کے بارے میں تو جانتے ہی ہوں گے۔ sympathy کسی دوسرے انسان کو مشکل میں دیکھ کے ہمدردی کا نام ہے اور empathy وہ خاص قسم کی ہمدردی جو کسی دوسرے کے کڑے وقت کے خیالات و جذبات کو اپنے پہ طاری کرکے محسوس کی جائے۔ مگر یہ ہم پیتھی Himpathy کیا ہے آخر؟

کورنل یونیورسٹی امریکہ کی فلا سفر پروفیسر کیٹ مین (Kate Manne) نے himpathy کی اصطلاح اپنی کتاب Down Girl روشناس کرائی ہے۔ ان کی دوسری کتاب کا نام Entitlement ہے۔

" یہ وہ ناجائز اور حقیقت سے ماورا ہمدردی ہے جو مسوجنسٹ مردوں کو عورت پہ ہر طرح کی زیادتی یا بدتمیزی کرنے کے باوجود دی جاتی ہے "۔

اسی بات کو بیٹی فریڈن نے 1963 میں اپنی مشہور عالم کتاب The feminine Mystique میں ایک ایسے مسئلے کے طور پہ اجاگر کیا ہے جو معاشرے میں موجود تو ہے لیکن کسی کو دکھائی نہیں دیتا۔

Himpathy پدرسری معاشرے کا وہ بدصورت سچ ہے جہاں مرد کسی بھی گھٹیا صورت حال سے بری الزمہ ہونے کے ساتھ ساتھ بےتحاشہ ہمدردی کا مستحق بھی ٹھہرتا ہے اور اس کے ہر فعل کی توجیہہ گھڑ لی جاتی ہے۔

لڑکی کا نام آپ لوگ کیوں نہیں لیتے؟

لڑکی بھی بر ابر کی ذمہ دار ہے، اس کے خلاف بھی بولیں نا۔

مذاق مت اُڑائیں، برا وقت کسی پہ بھی آ سکتا ہے۔

یہ سب ڈرامہ ہے۔

وہ معاشرے کا نامور آدمی ہے، ہمیں اس کی خدمات فراموش نہیں کرنی چاہئیں۔

بجا جناب، آپ کا کہا سن لیا ہم نے۔ سب سے پہلے تو یہ کہ اس لڑکی نے میڈیا پہ بیٹھ کر اخلاقیات پہ لیکچر کبھی نہیں دیا اور مرد حضرات کے خلاف کبھی کوئی ایسی مہم نہیں چلائی جو محترم کا کارنامہ ہے۔ دوسرے اس نے معاشرے میں ایسا کوئی زہر نہیں پھیلایا کہ آج ہم اس کا حساب مانگیں؟

جس گینگ کا وہ حصہ ہے تو نہ جانے کس کمزوری نے اسے جرم کی دنیا میں دھکیل دیا ہے؟

نہ جانے اس گینگ کے مردوں نے اس کی کیا گت بنائی ہوگی؟ نہ جانے کیسے وہ وڈیو میں کٹھ پتلی بنی؟

سوچئیے جس گینگ نے خلیل جیسے گھاگ اور شاطر کو قابو کر لیا، آمنہ عروج کی کیا بساط کہ یہ کھیل کھیلنے سے انکار کرتی؟

یہی تو ہمیں افسوس ہے کہ پدرسری نظام اگر کسی گھاگ مرد کو گھیر کر تختے پر لانا چاہے، اس کا چارہ عورت کو ہی بننا پڑتا ہے، نہ جانے کس مجبوری کے عوض؟

دوسری طرف رائٹر صاحب کی زبان اور قلم سے نکلے ان انگاروں کو کیسے بھولیں جن سے اس مرد نے ملک کی تقریبا ہر عورت کو جلا کر راکھ کر دیا، یہ مرد جب چاہتا عورت کو دو ٹکے کا کہہ کر پکارتا، جب چاہتا طوائف قرار دیتا، جب جی چاہتا عورت کے جسم کو رگید دیتا، جب موڈ ہوتا موم بتی والی عورتوں کو کوستا۔ جب چاہتا لڑکیوں کو بے عزت کرکے ایک کمینی ہنسی کے ساتھ سگریٹ کے کش لگاتا۔

اس کی باتیں سن کر محسوس ہوتا کہ ہر عورت اپنی عزت ہتھیلی پہ رکھے بازار میں نیلام کرنے کے لئے گھوم رہی ہے، ۔ چڑیلیں اور جادوگرنیاں، طوائفیں، گندے جسم والیاں جن پہ صاحب تھوکنا بھی پسند نہ کریں۔۔ کم عقل، جاہل، ذلیل، کمینی، حرامزادی، گھٹیا، بے حیا، بے وفا، بے شرم، غرض کی پتلیاں۔

یہ زہریلا راگ سن سن کر کان پک گئے اور کراہت محسوس ہونے لگی، ہر بار ایک نیا الزام سننے کے بعد حیرت سے سوچا کہ کوئی شخص اتنا منفی کیسے ہو سکتا ہے؟ اور رب کے بنائے ہوئے انسان کو نیچ اور ارزاں ثابت کرنے کے لیے کیسے کوئی اپنے قلم کو پاتال میں گرا سکتا ہے، لفظ کی حرمت پامال کرتے ہوئے؟

لگتا تھا اس شخص نے کسی عورت کے بطن سے جنم نہیں لیا اور کسی عورت نے اس کے بچوں کو جنم نہیں دیا۔ سو عورت کے حوالے سے اس کے پاس کوئی اچھا خیال، یاد اور سوچ نہیں۔ اس کی آنکھ میں ایک ایسا لینز فٹ ہے جو ہر عورت کو دیکھتے ہی اس کا ایکس رے کرتا ہوا اسے وہ دکھاتا ہے جس کا سانچہ خلیل نے اپنے ذہن میں بنا رکھا ہے۔

اس کے مصاحبین اس کی کمر ٹھونکتے ہوئے قہقہے لگاتے، اسے آئینے میں اس کی اصل شکل دکھانے والا کوئی نہیں تھا سو ٹی وی سکرین پر اس کی زبان درازی اور عورت دشمنی حد پار کر گئی۔

لیکن سیانا کوا اپنے جال میں خود ہی پھنس گیا۔ دن کے اندھیرے میں عورت کو پھٹکارنے والا شخص رات کے اندھیرے میں عورت کی زلفوں کے سائے میں پناہ لینے کا شوقین تھا۔ یہی تو المیہ ہے پدرسری نظام کا، وہ عورت جو پاؤں کی جوتی سمجھ کر پہنی جاتی ہے، وہ ضرورت پڑنے پر مرد کی گندگی سمیٹنے کے لیے گھڑی دو گھڑی بستر پہ لائی جاتی ہے۔ خود کو حاکم سمجھنے والے کا خیال ہے کہ عورت کیسے برتی جائے گی اس کا فیصلہ وہ خود ہی کریں گے سو دن میں چھڑی کی چھمک اور رات میں بدبودار دہن!

مذہب کی آڑ میں کھل کھیلنے کے بعد جب محترم پکڑے گئے تو برادری تڑپ گئی۔ شطرنج پہ سب سے آگے رہنے والے مہرے کو پٹنے کیسے دیا جائے؟ وہی تو ہے جو موم بتی والی عورتوں کو نکیل ڈال کر رکھتا ہے سو چلاؤ مہم کہ ہائے بے چارہ، لٹ گیا بھرے بازار میں۔ نکل آئے مرد حضرات اپنے اپنے بھاشن لے کر۔

بس بھی کرو۔

ہائے بے چارہ مر نہ جائے کہیں؟ بندہ بشر ہے۔

کافی ہوگئی۔

کہیں عامر لیاقت والا حشر نہ ہو۔۔

اور تو اور ہمارے ایک عزیز نے ہمیں مشورہ دے ڈالا کہ بے چارے کی مورل سپورٹ میں کچھ لکھ دو، سوچئیے ہمارا کیا حشر ہوا ہوگا؟

سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمدردی کا اس قدر شدید بخار کیوں؟

اس لیے کہ اکثریت ہم پیتھی کا شکار ہو چکی ہے اور شکار ہونے والوں میں عورتوں کی تعداد مردوں سے کم نہیں۔ کچھ تو وڈیوز بنا بنا کر محترم کی مجبوری بیان کر رہی ہیں، ایسے میں آمنہ عروج کا کوئی کیوں سوچے؟

اصل بات کچھ یوں ہے کہ پدرسری نظام کی بالا دستی سے جنگ کرنا گویا جلتے انگاروں پہ ننگے پاؤں چلنا ہے۔ اس راہ میں جو گالی گلوچ، پتھر، طعنے اور الزام حصے میں آتے ہیں، انہیں سہنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ یہ وہی سہہ سکتا ہے جسے پدرسری نظام کی بدصورتی پہ یقین ہو اور جو اس معاشرے کی سیاہی کم کرنے میں اپنا حصہ ڈالنا چاہتا ہو۔

سوشل میڈیا میں فالوورز اکھٹے کرنے، شہرت اور پیسہ کمانےکا شوق رکھنے والوں میں یہ دم خم کہاں؟

Check Also

Retirement Ke Baad (3)

By Rao Manzar Hayat