Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Tahira Kazmi/
  4. Mardana Banjh Pan Aur Stem Cells

Mardana Banjh Pan Aur Stem Cells

مردانہ بانجھ پن اور سٹم سیلز

پچھلے دنوں ہوا کے دوش پہ تیرتا ہوا ایک وڈیو کلپ ہم تک آن پہنچا جس میں پاکستان کے ایک چھوٹے شہر میں مقیم ایک خاتون ڈاکٹر اپنے ہسپتال میں مردانہ بانجھ پن کا علاج سٹم سیل سے کرنے کا مژده سنا رہی تھیں اور کامیابی کا تناسب آسمان کو چھو رہا تھا۔ سن کے، ہم چپ رہے ہم ہنس دیے، والا معاملہ آن پڑا۔

ڈاکٹر صاحبہ کے نام کے ساتھ رنگا رنگ ڈگریوں کی بہار تھی۔ لیکن بنیادی ڈگریوں کے علاوہ باقی سب ہفتے دس دن کے کورس تھے جو سب ہی ممالک روٹین میں کرواتے ہیں لیکن وہ اصل تربیت کے مترادف نہیں ہوتے۔

سب سے پہلے تو یہ جان لیجیے کہ سٹم سیل ہیں کیا؟ اور کرتے کیا ہیں؟

انسانی بطن کے اندر بننے والا بچہ اصل میں کچھ بنیادی خلیوں کی پیداوار ہے۔ بیضے اور سپرم کا ملاپ بہت ابتدا میں ایسے بنیادی ہر فن مولا خلیوں کو جنم دیتا ہے جو جسم کے ہر عضو اور ہر بافت کو بنانے پہ قادر ہوتے ہیں۔ یہ خلیے سٹم سیلز کے نام سے جانے جاتے ہیں۔

سائنسدانوں نے تحقیق کرنے کے بعد تین قسم کے سٹم سیلز کا ذکر کیا ہے۔ پہلے وہ جو تین سے پانچ دن کی عمر کے اس حمل سے نکالے جائیں جو نسائی بیضے اور سپرم کو مصنوعی طور پہ جسم سے باہر ملا کے ٹھہرایا جائے۔ دوسرے وہ جو کسی بھی انسان کے ہڈیوں کے گودے یا چربی سے لیے جائیں۔ اور تیسرے کسی بھی نومولود کی پیدائش کے وقت اس کی آنول سے حاصل کیے جاتے ہیں۔

سٹم سیلز کے طریقہ علاج کو ہر عضو کی بیماری کے علاج کے لئے استعمال کے جانے کی کوششیں اور ریسرچ جاری ہے۔ مثال کے طور پہ اگر کسی کا دل آدھا ناکارہ ہو چکا ہے اور مریض بستر پہ زندگی کے آخری دن گن رہا ہے۔ سائنس دان سٹم سیلز کو لیبارٹری میں بہت ہی سپیشل طریقے سے اس طرح سے اگائیں گے کہ جب انہیں مریض میں انجکٹ کیا جائے وہ دل کے لئے نئی بافتیں بنا سکیں کیونکہ ان کی دل کے لئے مسلز بنانے کی صلاحیت کو ایک ہدایت کے ذریعے مہمیز کیا گیا ہے۔

امید کی جاتی ہے کہ مستقبل میں سپائنل کارڈ کی انجری (جیسے منیبہ لغاری کو ہوئی) پارکسنز (محمد علی کلے) الزائمر (ہماری اماں اور بے شمار لوگ)، ٹائپ ون ذیابیطس، فالج، کینسر، ناکارہ دل اور پھیپھڑوں کا علاج ہو سکے گا۔ مردانہ بانجھ پن بھی اسی فہرست میں شامل ہے۔

سائنسدانوں کی ریسرچ دن رات جاری ہے کہ ان تمام موذی امراض کا مقابلہ سٹم سیلز سے کیا جا سکے۔ ابھی تک ہڈیوں سے نکالے جانے والے گودے کو خون کے کینسر میں بون میرو ٹراسپلانٹ کے طور پہ استعمال کیا گیا ہے لیکن وہ بھی بہت خاص سینٹرز تک محدود ہے۔

صاحب، اب آپ کو سمجھ آئی کہ اس ویڈیو کلپ جو کہ ٹی وی کے کسی پروگرام کا تھا، نے ہمارے ہوش کیوں اڑا دیے۔ وہ ڈاکٹر صاحبہ کسی ذاتی چھوٹے سے ہسپتال میں بیٹھ کے مردانہ بانجھ پن کا علاج سٹم سیلز سے کرنے کی دعویدار تھیں۔ جو کام دنیا کے بڑے بڑے مراکز پہ ابھی تحقیق کے مراحل میں ہے وہ پاکستان میں ڈاکٹر صاحبہ کی ٹیم کے ہاتھوں سر انجام پا رہا ہے۔ چلیے فرض کر لیجیے کہ ایسا ہوا بھی ہے تو بین الاقوامی سائنسی جریدوں میں اس کے متعلق چھپنا چاہیے تاکہ دنیا جان سکے کہ ہم ایسے بھی گئے گزرے نہیں۔

جب اضطراب میں کسی طور کمی نہیں آئی تو ایڈنبرا سکاٹ لینڈ کے رائل انفرمری ہسپتال کا نمبر گھما ڈالا جہاں سالہا سال سے بانجھ پن اور ٹیسٹ ٹیوب بے بی مرکز میں کام کرنے والی ڈاکٹر فرح نے ہماری بات سنی اور بے اختیار گنگنا دیں، دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا۔

اسکاٹ لینڈ کے سب سے بڑے مرکز میں حکومت کی سرپرستی اور سائنسدانوں کی موجودگی کے باوجود سٹم سیلز سے مردانہ بانجھ پن کا علاج نہیں شروع کیا گیا۔ نہ جانے ہم پاکستانی اتنے منکسر مزاج کیوں ہیں کہ اپنی کامیابیوں سے دنیا کو آگاہ ہی نہیں کرتے؟

خیر بات ہو رہی تھی مردانہ بانجھ پن کی، تو جان کیجیے اگر رکاوٹ والا Azospermia ہے تو اس میں کامیابی کے امکان روشن ہیں بالکل ویسے ہی جیسے ٹنکی میں پانی موجود ہو اور پائپ بند ہو جائے۔ ایسی صورت میں پائپ لائن کھولنے سے مسئلہ حل ہو جائے گا۔

مسئلہ اس جگہ گھمبیر ہے جہاں سپرم بنانے کی صلاحیت متاثر ہوئی ہو جیسے کن پیڑوں (mumps) کی انفیکشن یا خصیوں کا پیٹ میں رہ جانا۔ سپرم کم بنیں یا نہ بنیں، کمزور بنیں یا متحرک نہ ہوں ان سب صورتوں میں دواؤں کا اثر بہت زیادہ نہیں۔ آخری حل آئی وی ایف یا ٹیسٹ ٹیوب بے بی ہی ہے جہاں اگر ایک آدھ ٹھیک سپرم بھی مل جائے تو حمل ٹھہرانے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔

رکاوٹ والے Azospermia میں خصیے کی بائیوپسی ہر صورت میں کروانی چاہیے۔ نہ صرف یہ کہ تشخیص ہو جائے گی بلکہ کسی پرت میں کچھ سپرمز بھی موجود ہو سکتے ہیں۔

ٹیسٹ ٹیوب بے بی یا آئی وی ایف کے مراکز دیار وطن میں گلی گلی ایک کاروبار کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ایسا کاروبار جس میں کچھ لوگوں کی آرزوئیں جل کے راکھ ہو جاتی ہیں۔ جی چاہتا ہے کبھی اس نازنین کے رخ سے بھی نقاب اٹھائی جائے۔

چلیے کبھی لکھ ڈالیں گے اس متعلق بھی!

Check Also

Kisan Ko Maar Kyun Nahi Dete?

By Raheel Moavia