Hostel Mein Pehla Din
ہوسٹل میں پہلا دن
ایک طویل کمرہ جس میں دونوں اطراف آٹھ دس چارپائیاں بچھی ہوئیں اور ہر چارپائی پہ ایک لڑکی اداس بیٹھی حیران پریشان نظروں سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی، کہاں آ گئی میں؟ یہاں، یہاں رہوں گی میں اگلے پانچ برس؟ امی ابا گئے، بہن بھائی بھی چلے گئے، ہائے میرا گھر۔
کبھی کبھی کوئی سسکی خاموشی کا سینہ چیرتے ہوئے سنائی دیتی اور کبھی کوئی اپنے آنسو دوسروں سے چھپا کر پونچھتی نظر آتی۔ وہ سب اجنبی تھیں ایک دوسرے کے لیے اور یہ ماحول اجنبی تھا ان سب کے لیے۔ وہ پاکستان کے مختلف شہروں سے آئی تھیں۔ گوجرانوالہ، سیالکوٹ، کراچی، کوئٹہ، راولپنڈی، سرگودھا، آزاد کشمیر، گلگت، کونسا شہر تھا جس نے اس ہوسٹل کو آباد کرنے میں اپنا حصہ نہیں ڈالا تھا۔ بڑے شہروں کی رہنے والیاں اپنے شوخ وشنگ اور باعتماد انداز سے پہچانی جاتی تھیں اور چھوٹے شہروں سے آنے والی جھینپی، شرمائی اور جلد گھبرا جانے والی۔ چاروں طرف اجنبیت اس قدر گھمبیر تھی کہ ذرا سی جان پہچان ڈوبتے کو تنکے کا سہارا بن جاتی۔
ہم اپنے رشتے داروں کے گھر سے لایا ہوا گدا، چادر اور تکیہ ایک ایسی چارپائی پہ بچھا چکے تھے جہاں ساتھ والی چارپائی پہ جہلم سے آنے والی فرزانہ موجود تھیں جن سے پہلے دن تعارف ہوا تھا۔ ہم شدید بوریت کا شکار تھے کہ کوئی لڑکی بھی دوسری سے بات نہیں کر رہی تھی۔ سب اداس پریشان۔۔ گھر چھوڑنے کا غم اور اب کیا ہوگا کی پریشانی۔
خیر ہم نے ہی ہمت کی اور ایک دو اور لڑکیوں سے ہیلو ہائے کرنے کے بعد پوچھا کہ وہ کہاں سے آئی ہیں؟ صائمہ اسلام آباد سے آئی تھیں اور قمر تربیلا سے۔۔ قمر کے ابا واپڈا میں انجینئیر تھے اور صائمہ کے ابا قائد اعظم یونی ورسٹی میں میتھس کے پروفیسر تھے۔ دونوں نے ایف ایس سی اسلام آباد کے ماڈل سکول سے کی تھی۔ ہمیں دونوں اچھی لگیں۔۔
شام ہونے کو آئی اور کمرے میں پھیلی اداسی کم ہونے میں نہیں آئی اور نہ ہی خاموشی ٹوٹی۔ ہم رہ رہ کر سوچتے بھئی شوق سے آئے ہیں نا، تو خوش ہونا چاہئے کہ داخلہ ملا اور یہاں تک آ پہنچے۔
جب یونہی بیٹھے بیٹھے ہم تنگ آ گئے تو سوچا کچھ کرنا چاہئے، کیا کروں؟ کہاں جاؤں؟
ایک دم ایک خیال ذہن میں کوندے کی طرح لپکا۔۔ پھپھو رہتی ہیں لاہور میں۔۔ ان کے گھر چلنا چاہئے۔
ایڈریس؟
ایڈریس تو ہمیں یاد نہیں تھا لیکن یہ پتہ تھا کہ وہ اندرون شہر میں ایسی جگہ رہتی ہیں جہاں ان کے گھر کی بالکونی سرکلر روڈ پہ کھلتی ہے البتہ گھر کی سیڑھیاں اندر گلی میں کھلتی ہیں۔
کوئی اور نشانی؟ دماغ نے سوال کیا۔
سرکلر روڈ پہ سڑک کے بیچ ایک مسجد ہے بس اس کے سامنے ہی وہ گلی ہے۔۔ ہاں یاد آ گیا۔۔ ان کی گلی کا نام ہے گروارجن نگر، بس جی کافی ہے، پہنچ جائیں گے۔
ہم چارپائی سے اٹھے، جوتا پہنا، بال برش کرکے اونچی سی پونی بنائی، کندھے پہ پرس ڈالا اور کمرے سے یہ کہہ کر نکل گئے کہ پھپھو کے گھر جا رہے ہیں۔
اس بات کا اندازہ ہمیں ایک دو دن میں ہو چکا تھا کہ کہیں جانے کے لیے وارڈن کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی کہ یہ پروفیشنل لڑکیوں کا ہوسٹل تھا، کبھی ہسپتال جاتیں تو کبھی کالج۔
ہمارے جانے کے بعد وہاں موجود لڑکیوں میں سراسیمگی پھیل گئی، وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھیں کہ کوئی لڑکی اکیلے پبلک ٹرانسپورٹ پہ کسی رشتے دار کے گھر جار ہی ہے اور اسے لاہور آئے ہوئے صرف دو دن ہوئے ہیں۔
بہت برسوں کے بعد صائمہ نے ہمیں بتایا۔۔ جب تم تیار ہو رہی تھیں تو ہم تمہیں حیرت سے دیکھ رہے تھے اور جب روانہ ہوگئیں تو ہم سب نے سوچا کہ عجیب پاگل لڑکی ہے، اور جب تم کافی دیر تک واپس نہ آئیں تو ہم سب خوفزدہ ہو گئے اور مشورہ کرنے لگے کہ وارڈن کو رپورٹ کریں۔
یہ بتانے کی ضرورت تو نہیں کہ ہم ان مشوروں کو ان کے عملی جامہ پہنانے سے پہلے ہی واپس آ گئے تھے۔
ہوسٹل کے گیٹ سے باہر نکلے تو بہت سے رکشے کھڑے تھے۔ ہم ایک رکشے پر بیٹھے اور اسے کہا سرکلر روڈ لے چلو۔۔ وہاں جہاں سڑک کے بیچ میں مسجد ہے۔
اس نے پوچھا، گوالمنڈی کی طرف سے جاؤں یا اوپر سے؟
ہمیں کیا خبر کہ کس طرف سے جانا ہے۔۔ بس دل کڑا کرکے کہہ دیا گوالمنڈی کی طرف سے۔۔ تاکہ اسے اندازہ نہ ہو کہ ہم شہر کے رستوں کی خبر نہیں رکھتے۔
رکشا سپیس راکٹ کی رفتار سے چلا۔ ہمیں کچھ کچھ ڈر تو لگ رہا تھا لیکن ہماری ازلی خود اعتمادی ہمارے کان میں سر گوشی کر رہی تھی کہ کچھ نہیں ہوتا، بے خوف ہوکر بیٹھی رہو۔
خیر جناب، جب سرکلر روڈ پہ ہمیں سڑک کے بیچ مسجد نظر آئی، ہم چلائے بس یہیں روک دو۔ رکشے سے اتر کر ہم نے ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ ہماری یادداشت میں ایک ایک اور نشانی تھی کہ گلی کے باہر سڑک پہ سپئیر پارٹس کی دکانیں ہیں اور گلی کے ساتھ ہی ایک بہت بڑا درخت بھی موجود ہے۔ دونوں نشانیوں کو دیکھ کر ہماری ہمت بڑھی اور ہم گلی میں داخل ہوئے۔ تنگ سی گلی، گھروں کے سامنے بنے چبوترے، ان پہ بیٹھے لوگوں نے ہمیں حیرت سے گھورا۔ ہم نظر انداز کرتے ہوئے چلتے رہے۔ اگلی نشانی یہ تھی کہ گھر گلی کے آخیر میں، جس کی بالکونی سڑک کی طرف کھلتی تھی۔
طویل گلی کے وسط میں پہنچ کر ہم نے اپنے پھپھا اور ان کے بیٹے کا نام لے کر پوچھا تو فورا ہی ایک بچہ ہمارے ساتھ چل پڑا اور ہمیں ایک ایسی ڈیوڑھی کے سامنے پہنچا دیا جس کی سیڑھیاں اس قدر تنگ اور عمودی تھیں کہ رسی کے سہارے چڑھنا پڑتا تھا۔ یہ منزل بھی ہم بلا خوف وخطر سر کر گئے اور جب اوپر پہنچے تو سامنے پھپھو کو دیکھ کر ہمیں اپنے ایڈونچر کے کامیاب ہونے کی خوشی ہوئی مگر پھپھو کا منہ کھل گیا، وہ کافی دیر تک سمجھ ہی نہ پائیں کہ پنڈی میں بھائی کی رہنے والی نوجوان بیٹی آخر ان کے گھر کیسے آ پہنچی اکیلی، ابھی تک وہ ہمارے داخلے کے بارے میں لاعلم تھیں۔
پھپھو حیران بھی ہوئیں اور پریشان بھی لیکن کچھ کہہ نہ سکیں کہ جانتی تھیں ان کی یہ بھتیجی "آپ ہدری "ہے۔
کھانا کھانے وار چائے پینے کے بعد شام ڈھلے ہمارا کزن موٹر سائیکل پہ ہمیں وارث روڈ چھوڑنے آیا تو ہماری شکل دیکھ کر سب لڑکیوں کی جان میں جان آئی۔ ہم بخیریت واپس پہنچ گئے تھے۔
ہمارے دوست آج بھی ہوسٹل کے پہلے دن کی اس شام کو یاد کرتے ہیں۔ ہم بھی۔