Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Tahira Kazmi
  4. Farz Karo Ke Tahir Beta Tahira Hai

Farz Karo Ke Tahir Beta Tahira Hai

فرض کرو کہ طاہر بیٹا طاہرہ ہے

دیکھو فرض کیے لیتے ہیں کہ۔۔ ارے بھئی اب ایسا منہ نہ بناؤ، فرض تو کچھ بھی کیا جا سکتا ہے۔۔ ہاں کچھ بھی، جو بھی دل میں آئے۔۔ کسی کا کچھ بگڑے گا تو نہیں۔ جیسے میں فرض کر لوں کہ میں کلیو پیٹرا ہوں اور سیزر سے مل کر دنیا فتح کرنے کے منصوبہ بنا رہی ہوں۔۔

کیا کہا تم نے؟ ماضی کا وہ زمانہ فرض کرنا اور تصور میں لانا مشکل ہے؟ لیکن فرض تو ایسی ہی بات کی جاتی ہے۔۔ اچھا چلو فرض کیے لیتے ہیں کہ میں انجلینا جولی ہوں۔۔ دیکھو ہنسو نہیں، مانا کہ اللہ نے ویسا حسن اور قد نہیں دیا، پھر بھی فرض کر لینے میں کیا حرج ہے؟ نہ تو اس میں ہاتھی گھوڑے جوتے جائیں گے اور نہ ہی مال متاع خرچ ہونے کا خدشہ۔

ہے تو عجیب بات لیکن فرض کیے لیتے ہیں! فرض کرنے سے کچھ بدلنے والا تو ہے نہیں لیکن شاید بات کچھ لوگوں کی سمجھ میں آ جائے۔

تو فرض کر لو کہ اگر قدرت کچھ ایسا فیصلہ کر لے کہ دنیا میں جنم لینے والے ہر بچے کی پہچان مخفی رکھی جائے گی جب تک وہ بلوغت کی عمر کو پہنچے۔ یعنی جس طرح پیدائش پہ اعضائے مخصوصہ اور ایک خاص عمر میں بچوں اور بچیوں کا نظام چالو ہو کر انہیں پہچان عطا کرتے ہیں، وہ سب کچھ بجائے وقت پیدائش بلوغت میں سامنے آئے۔ اس سے پہلے کوئی صنفی فرق نہ ہو، کوئی پہچان نہ ہو، کوئی اندازہ نہ ہو کہ یہ انسان مستقبل میں لڑکی ہو گی یا لڑکا۔

کیا دیکھ رہے ہو گھور گھور کے میری طرف؟ بہت عجیب سا خیال ہے نا۔ لیکن مجھے تو بہت منفرد لگا یہ آئیڈیا!

چلو دیکھے لیتے ہیں کہ ہو گا کیا؟

"اجی سنتے ہو، خوشخبری ہے، گھر میں خوشی آنے والی ہے"

یہ خبر سننے پہ زبان سے مجھے وارث چاہیے نما فرمائشی الفاظ جھڑنے کا امکان تو رہا نہیں، جانتے ہیں، بنا کسی پہچان کے انسان کا بچہ پیدا ہو گا۔ بارہ چودہ برس بعد کے امکانات پہ ابھی سے کیا ماتھے پہ بل ڈالے جائیں، یوں بھی کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔ تسبیح ہاتھ میں پکڑ مصلے پہ بیٹھ کر دعا مانگنے کا سلسلہ بھی ختم اور طنز و تشنیع کی بوچھاڑ بھی دیوانگی ہی کہلائے گی کہ لڑکا اور لڑکی کی بحث ہی ختم ہو چکی۔

لیجیے صاحب، بچہ دنیا میں آ چکا۔ اگر آپ کو ایک انسان کی آمد پہ شادیانے بجانے ہیں تو بجا لیجیے لیکن لڈو تقسیم کرنے پہ وہ تہنیتی پیغامات کہیں نہیں ہوں گے کہ ولی عہد مبارک۔ بیٹی کی خبر کے ساتھ ماں کا سہما ہوا چہرہ اور بھیگی بھیگی آنکھیں بھی بھول جائیے کہ اب وہ تکیہ ہی نہیں رہا۔

اب سوچیے کہ نام کیا رکھا جائے؟ ایسا جو لڑکی کے لئے بھی درست ہو اور لڑکے پر بھی فٹ بیٹھے۔ عظمت؟ شایان؟ نصرت؟

اور جی چاہے تو طاہرہ جو بوقت ضرورت طاہر بن جائے؟ سعد جو سعدیہ ہو؟ صائمہ صائم، رشید رشیدہ، خالد خالدہ۔

اب بالائی والے دودھ کا حقدار تو کوئی ہو گا نہیں اور سالن میں اچھی بوٹی بھی لاوارث ٹھہرے گی سو مجبوراً یہی بے شناخت بچہ بغیر کسی صنفی امتیاز آپ کا منظور نظر بنے گا۔ اسی کے لئے آپ گھوڑا بنیں گے اور اسی کو دیکھ دیکھ کے صدقے واری ہوتے رہیں گے۔

گڑیا خریدنی ہے یا بلا اور گیند، یہ ٹنٹا بھی ختم۔۔ بچہ جو چاہے دلا دیجئے۔ فراک پہنانی ہے یا نیکر شرٹ، ارے کچھ بھی پہناؤ کوئی فرق تو ہے نہیں۔ بچہ سائیکل چلائے یا سکوٹی، کسی کے ماتھے پر بل نہیں پڑیں گے۔

سکول بھجیتے وقت یہ کون سوچے گا کہ پرائے دھن پہ خرچہ کیوں کروں؟ امور خانہ داری سکھلانے میں بھی تخصیص نہیں ہو گی۔ ابا بھائیوں کے سامنے دوپٹہ لینے کی ہدایت بھی غائب اور وقت بے وقت سرزنش بھی نہیں۔

لیجیے سب سے مزے کی بات تو ہم بھولے جا رہے ہیں۔ چھوٹی بچیوں کو ہوس کا نشانہ بنانے والوں کی سب امیدیں خاک میں مل جائیں گی کہ وہاں اب ایسا کچھ ہوگا ہی نہیں۔

بچیوں کو گود میں بٹھا کر چھونا، بہانے بہانے سے ساتھ لپٹانا اور اغوا کر کے جنسی شقاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے موت کے گھاٹ اتارنے والوں کی تو ہو جائے گی چھٹی!

زینب اور فرشتہ جیسی ہزاروں بچیاں غبارہ لینے گلی کے نکڑ پہ جائیں گی تو لوٹ کر واپس بھی آئیں گی۔

لیجیے جناب بارہ تیرہ کا سن آ لگا اور اب راز فاش ہو گا کہ آپ کے آنگن میں کھیلتا بچہ جمیل ہے یا جمیلہ۔

اس طویل عرصے میں کیے جانے والے مساوی سلوک اور ایک سی محبت نے آپ کو پدرسری نظام کی سنگدلی سے محفوظ رکھا ہے۔ اور اب صنفی فرق کے تعصبات کی بھینٹ نہ چڑھنے والا یہ انسان کا بچہ بھی زندگی کی دوڑ میں برابر کی رفتار سے دوڑنے کے قابل ہو گا چاہے بیٹا ہو یا بیٹی۔

مساوی رویوں، محبت، اعتماد، توجہ، اور برابری نے اس بچے میں کمتری کا احساس پنپنے ہی نہیں دیا۔ دنیا کی ہر چیز پہ بغیر کسی صنفی امتیاز اس بچے کا حق مسلم ہونے کا اعزاز اس کی زندگی میں کیا رنگ بھر سکتا ہے، کوئی اندازہ بھی نہیں کر سکتا۔

آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ ہمیں یہ انوکھا خیال سوجھا کیسے؟

میڈیکل کے طلبا و طالبات کو پڑھاتے ہوئے نہ جانے کیسے فیمینزم پہ بحث چھڑ گئی۔ گرما گرم گفتگو کے دوران ایک طالب علم نے کہا۔

میں اینٹی فیمینسٹ ہوں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ عورتیں کیا باتیں کرتی ہیں؟

ہم کچھ ثانیے چپ رہے اور پھر پوچھا کہ کیا گھر میں تمہاری بہن وہ سب کچھ کر سکتی ہے جو تم کرتے ہو؟ جب چاہو گاڑی لے کر باہر نکل جاؤ، جب چاہو دوستوں کی محفل جما لو، جو کرنا چاہتے ہو کر گزرو۔ پڑھائی، محبت، شادی، طلاق۔

جو نہیں کرنا چاہتے، نہ کرو۔

یہ کر گزرنے کی طاقت ہے جو تمہیں ایسا با اعتماد بناتی ہے۔ بھلے تم کچھ بھی نہ کرو مگر کر گزرنے کی طاقت پہ اختیار۔ یہ خیال ہی انتہائی طاقتور ہے۔

عورت ایسا نہیں کر سکتی، کرنے ہی نہیں دیا جاتا۔ کرنے کی خواہش کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔

قدم قدم پہ پابندیاں، رکاوٹیں، نصیحتیں، تاکیدیں، مجبوریاں، روایات، رسوم، رواج، کلچر، معاشرہ۔۔ پاؤں میں پڑی ہوئی زنجیریں گن سکتے ہو تو گن لو۔

اور پھر تم سوچو کہ عورت پیدائشی طور پہ صلاحیتوں میں کمتر ہے اور بے اعتماد! تم اسے راہ حیات کا ایک پھسڈی مسافر سمجھو۔ سوچو جس شخص کو ریس کی سٹارٹنگ لائن برابر کی نہ ملے، وہ تمہارے برابر کیسے دوڑ سکتا ہے؟

ہمارا فیمینزم ہمیں سجھاتا ہے کہ اس دنیا میں آنے والے ہر نفس کو مرد و عورت کی تخصیص کے بغیر انسان ہونے کی بنیاد پہ زندگی بسر کرنے کا ایک جیسا حق حاصل ہونا چاہیے۔

لڑکیاں تالیاں بجا رہی تھیں اور لڑکے گہری سوچ میں گم تھے۔

Check Also

Siyah Heeray

By Muhammad Ali Ahmar