Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Tahira Kazmi/
  4. Dastangoi Ka Fan Aur Firon

Dastangoi Ka Fan Aur Firon

داستان گوئی کا فن اور فرعون

"اب اس مغرور کا حال سنئیے، رات کو وہ سوگئی، صبح کیا دیکھتی ہے کہ اس کے بچے مر گئے غلہ اور سامان غائب ہو گیا۔ جب گھر میں کچھ نہ رہا تو اس کے حواس جاتے رہے۔ دونوں میاں بیوں رونے لگے۔ جب کافی وقت گذر گیا تو اس نے کہا یا اللہ اب بھوک سے میرا برا حال ہے میں کیا کروں۔

گھر میں گیہوں کی بھوسی ملی سو چا اس کو پکا کر کھا لوں جیسے ہی اس کو چھوا اس میں برابر کے کیڑے نظر آئے۔ اس نے فوراً بھوسی کو پھینک دیا جب اس کے شوہر نے یہ ماجرہ دیکھا تو کہنے لگا کہ میری بہن کے گھر چلو وہاں روٹی ملے گی اور میرا بہنوئی مجھے لازمی کھانا دے گا۔ گھر کا تالا بند کر کے دونوں میاں بیوی چل دیئے۔ انکے پاس کچھ نہ تھا جو کسی سواری میں جاتے، پیدل چلنے سے انکے پیروں میں چھالے پڑ گئے"۔

قصہ سناتے ہوئے داستان گو کی آواز کبھی اونچی ہوتی، کبھی سرگوشی میں بدل جاتی۔ کبھی چہرے سے خوف جھلکنے لگتا اور کبھی پریشانی، کبھی لہجے میں تندی آ جاتی اور کبھی شیرینی گھلنے لگتی۔ ایک ایک ڈائیلاگ مختلف انداز سے ادا کیا جاتا، محفل میں سناٹا چھا جاتا اور لوگ مسحور ہو کر ایسے سنتے کہ شاید آغا حشر کاشمیری کی شاگرد رشید اپنے فن کا مظاہرہ کر رہی ہوں۔

واللہ علم نہیں کہ داستان گوئی کے فن نے ہمیں ڈھونڈا یا ہم نے یہ شوق خود ہی پال لیا اور نہ صحیح سے یہ یاد ہے کہ یہ سب کب اور کیسے شروع ہوا؟ لیکن اتنا ضرور یاد ہے کہ باتیں کرنا اور کتابوں سے پڑھے ہوئے قصے کچھ اداکاری کے ساتھ سنانا ہمیں بہت اچھا لگتا تھا۔ ابا کے دوست ہوں یا اماں اور آپا کی سہیلیاں، جب تک گھرک کر ہمیں ان کی محفل سے بھگایا نہ جاتا ہم کہیں پاس ہی جمے رہتے اور موقعے کی تلاش میں رہتے کہ کب کوئی لطیفہ یا نظم سنایا جا سکتا ہے؟ موقعہ مل جاتا تو پھر ہماری سوئی رکنے کا نام نہ لیتی۔

گھر میں احباب کو بور کرنے کے علاوہ اگر ان محفلوں کا ذکر نہ کیا جائے جنہوں نے ہمیں تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے داستان گوئی کے رموز پریکٹس کرنے کا موقع دیا تو یہ داستان ادھوری رہ جائے گی۔

ہماری گفتگو میں شاید پہلے بھی کہیں ذکر آچکا ہے کہ ہمارے محلے کی بیبیوں کو دس بیبیوں کا معجزہ / بی بی فاطمہ کا معجزہ ماننے اور پھر منت بڑھانے میں خاصی دلچسپی تھی۔ ان دنوں اس قسم کی سرگرمیاں فتوؤں کی پہنچ میں نہیں آئی تھیں۔ ہر دوسرے روز کسی نہ کسی کے گھر سے سہ پہر میں اکھٹے ہونے کا بلاوا آ جاتا۔ ابا دفتر سے گھر آ جاتے، کھانا وغیرہ کھا کر قیلولہ کرتے اور اماں سر پر چادر رکھتے ہوئے یہ کہہ کر روانہ ہو جاتیں، معجزہ سننے فلاں گھر جا رہی ہوں۔

ہماری دونوں بہنیں اچٹتی ہوئی نظر سے اماں کو دیکھتیں اور جو بھی کام کر رہی ہوتیں، اسی میں منہمک رہتیں۔ ہمیں لگتا تھا کہ اماں کے ذوق و شوق کے اصل وارث تو ہم ہی ہیں سو گھر کے جس کونے میں بھی ہوتے، اماں کی آواز سن کر جھٹ پٹ اٹھتے اور اماں کے ڈیوڑھی سے نکلنے سے پہلے ہی ان کو جا لیتے۔ اب یہ کوئی تفریحی پروگرام تو تھا نہیں جس پہ اماں ہمیں گھرکتیں ہوتیں، ثواب کمانے ہی تو جانا تھا۔

میزبان کے ہاں ایک کمرے میں سفید چاندنی بچھی ہوتی، اگر بتی سلگ رہی ہوتی اور محلے کی خواتین ایک دوسرے سے علیک سلیک کر رہی ہوتیں۔ ہمارے علاوہ کوئی اور بچی وہاں نہ ہوتی۔ جب سب عورتیں اکھٹی ہو جاتیں تو محفل کا آغاز درود و سلام سے ہوتا پھر معجزہ پڑھنے کے لیے خالہ فاطمہ کو کہا جاتا جو محلے کے بچوں کو قرآن پڑھایا کرتی تھیں۔ خالہ فاطمہ شروع کرتیں۔

"دو بھائی ایک شہر میں رہتے تھے۔ بڑا بھائی بہت۔۔ رئیی رئیس تھا اور چھوٹا بھائی بہت،۔ نا، نادا، نادار اور مفل،۔ مفلس تھا۔ چھوٹا بھائی اپنی مفلسی کی وجہ سے بہت،۔ عا، عاج، عاجز آگیا تھا۔ ایک دن وہ اپنی بیوی سے کہنے لگا کہ یہاں پر ہم کب تک فف، فقر و ففف، فاقہ کی مصیبت سہ، سہت، سہتے رہیں گے"

ہم پوری توجہ سے سننے کی کوشش کرتے مگر کچھ ہی دیر میں بور ہو جاتے۔ سمجھ نہ آتی کہ کیا مشکل ہے؟ آخر ایک دن گھر جاتے ہوئے اماں سے پوچھ ہی لیا۔

"اماں خالہ فاطمہ اٹک اٹک کر کیوں پڑھتی ہیں؟ اردو ہی تو ہے"

اماں ہنس پڑیں، بیٹا ہم پرانے زمانے کی عورتیں، بڑے سکولوں سے نہیں پڑھا ہم نے، کچھ الفاظ مشکل ہوتے ہیں سو غور کرنا پڑتا ہے۔ اماں کے لہجے میں چھپی نارسائی ہمیں بہت بعد میں سمجھ آئی۔ اس وقت تو ہم سوچتے، الفاظ مشکل کیسے ہو جاتے ہیں؟ ہم تو سارے رسالے یوں فٹا فٹ پڑھ لیتے ہیں۔

انہی محفلوں میں آتے جاتے، خواتین کی ٹوٹی پھوٹی اردو میں داستانیں سنتے نہ جانے کیسے ہم نے اس مشکل کا حل تلاش کر لیا۔ اگلی بار کسی اور گھر میں ایسے ہی شام ڈھلے قبل اس کے کہ خالہ فاطمہ کے ہاتھ میں کتاب دی جاتی، ہم نے میزبان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، خالہ میں پڑھوں؟

میزبان کے چہرے پہ حیرانی کے ساتھ کچھ کش مکش کے آثار نمایاں تھے۔ ابھی وہ سوچ ہی رہی تھیں کہ پاس بیٹھی بٹ صاحب کی بیگم جو ہماری ہمسائی بھی تھیں، کہنے لگیں۔ "ہاں ہاں پڑھنے دو اسے، یہ سکول میں بہت تقریریں کرتی ہے، انعام جیت کر لاتی ہے"۔

لیجیے جناب، ہماری سفارش آ گئی تھی، اماں ہمیں حیرت سے گھور رہی تھیں، انہیں نظرانداز کرتے ہوئے ہم نے جھٹ سے کتاب پکڑی اور چھوٹا سا سکارف نما دوپٹہ سنبھالتے ہوئے مخصوص کرسی پر جا بیٹھے۔ جو کہانی اس سے پہلے آدھے پون گھنٹے میں بمشکل ختم ہوا کرتی تھی وہ پندرہ منٹ میں ہم نے بنا اٹکے پڑھ ڈالی۔

پڑھتے ہوئے کن اکھیوں سے اماں کی طرف بھی دیکھتے رہے جن کے چہرے پر فخر و انبساط دور سے نظر آ رہا تھا۔ کہانی ختم ہوئی تو سب ہی عورتوں نے پیار کرتے ہوئے اماں کی طرف رشک سے دیکھتے ہوئے مبارکباد یاں دینی شروع کیں کہ ان کی چھوٹی سی بیٹی نے آج محفل لوٹ لی تھی۔

گھر پہنچ کر اماں بہت خوش تھیں اور ابا کو قصہ سناتے ہوئے انہوں نے باقاعدہ تصویر کھینچنے کی کوشش کی۔

"مجھے تو پتہ ہی نہ چلا اور یہ اچھل کر کرسی پر بیٹھ گئی۔ ایسی صاف آواز میں اس نے معجزہ پڑھا، نہ کہیں اٹکی، نہ گھبرائی، نہ شرمائی"، ابا مسکرا مسکرا کر سر ہلاتے رہے۔

آنے والے برسوں میں یہ ہوا کہ ان محفلوں میں پڑھی جانے والی کہانیاں داستان گوئی کی طرز میں سنا کر ہم وہ مقام حاصل کر چکے تھے کہ اب جس گھر میں بھی ایساکوئی اہتمام ہوتا ہمارے لیے وہاں سے خاص بلاوہ آتا۔ وہاں پہنچتے ساتھ ہی آؤ بھگت شروع ہو جاتی۔ داستان گو کی کرسی پر بٹھایا جاتا، پانی کا گلاس اور سونف پاس رکھی جاتی، کبھی کبھی مائیک کا بندوبست بھی ہوتا۔ حاضرین محفل ہمارے سامنے مودب ہو کر بیٹھتے، سب کی آنکھیں ہم پر جمی ہوتیں، کمرے میں گھمبیر خاموشی ہوتی اور ہم اپنی پاٹ دار آواز میں زیر وبم کے ساتھ قصہ سناتے۔

"جب سپاہی وَہاں پہونچا تو کیا دیکھتا ہے کہ جہاں محل تھا وَہاں اَب مَیدان ہے۔ نہ تخت ہے نہ تاج۔ نہ بادشاہ نہ فوج، کچھ بھی نہیں، صرف لُوٹا مَیدان میں رَکھّا ہوا ہے۔ جسکا کوئی نِگران بھی نہیں ہے۔ سپاہی نے چاہا کہ لُوٹا اُٹھالے لیکن ممکن نہ ہوسکا، اِس لئے کہ اُس نے جیسے ہی لُوٹے کی طرف ہاتھ بڑھایا مَعاً ایک خطرناک کالے سانّپ نے لُوٹے کے اندر سے پَھن نکالا اور اس کو کاٹنے کے لئے لَپکا"

قصہ ختم ہونے پر سب عورتیں ہماری بلائیں لیتیں، اماں کی طرف دیکھتیں جن کے چہرے پہ فخر سےلکھا ہوتا، دیکھو یہ میری بیٹی ہے۔ قصہ ختم ہوتا، دعا مانگی جاتی اور پھر چائے آ جاتی، اماں اور ان کی داستان گو بیٹی کا خاص خیال رکھا جاتا۔ نیاز کے لڈوؤں کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتا جو ہمارے سامنے بار بار لایا جاتا۔ رخصت ہونے پر کچھ تبرک گھر بیٹھے بچوں کے لیے بھی دے دیا جاتا۔

وقت گزرتا چلا گیا۔ وہ محلے دار باقی رہے، نہ وہ بیبیاں اور نہ ہی معجزے سننے کا رواج۔ اور یہ بھی تو ہے کہ ہم بھی وہ کہاں رہے جو تھے۔ لیکن جب ان بھولی بسری یادوں کا پنڈورا باکس کھلا، تب ہم نے حیران ہوتے ہوئے سوچا، گئی صدی کے یہ قصے نہ جانے اب تک کہاں دفن تھے۔

یادوں کی اس یلغار نے مصر میں ہمیں آ دبوچا جب ہم شاہی میوزیم میں فرعونوں کے حنوط زدہ جسموں کو دیکھتے ہوئے سوچ رہے تھے کہ شاید ان میں بی بی آسیہ بھی ہوں، جو تھیں تو اس زمانے کی ملکہ اور فرعون کی بیوی مگر حضرت موسیؑ کو اپنی گود میں پالنے کا شرف انہی کو حاصل ہوا۔ بی بی آسیہ کا نام یاد آتے ہی ایسالگا کہ گویا الجھے ہوئے ریشم میں لگی گرہ آپ کے ہاتھ آ گئی ہو اور ریشم کے لچھے ایک کے بعد ایک کھلتے ہی چلے جائیں۔ گزرا ہوا بچپن پریوں کی کہانی جیسا ہی تو ہے جہاں ایک ایسا گھر تھا جس کے مکینوں کے لمس کی ملائمت اور بوسے کی شیرینی بھلائے نہیں بھولتی۔

ہمیں آپ کو شاہی میوزیم میں فرعون سے ہوئی ملاقات کا احوال سنانا ہے، یہ تو ابھی تمہید باندھی ہے ہم نے!

Check Also

Faizabad Ka Stop

By Naveed Khalid Tarar