Aye Zamane Walo, Main Hoon Taaru Maaru
اے زمانے والو، میں ہوں تاڑُو ماڑُو
دو واقعات سنانا چاہتے ہیں ہم!
ماموں بھانجی کے بیچ گفتگو۔
بلوغت کو پہنچتی بھانجی کو ماموں بہت کچھ سمجھانا چاہ رہا ہے اور بھانجی کے پاس بہت سے سوال ہیں۔
کیا تم جانتی ہو کہ کسی لڑکی کو دیکھ کر لڑکے آپس میں کیا باتیں کرتے ہیں؟
نہیں۔۔
تو سنو باتوں ہی باتوں میں وہ لڑکی کے لباس سے لے کر اس کے خدوخال سے ہوتے ہوئے نو گو ایریاز تک پہنچ کر وہ سب کچھ کر ڈالتے ہیں جو زبان نہیں کہہ سکتی۔
مگر کیوں؟ عورت، عورت ہونے سے پہلے ایک انسان ہے۔ اسے جسم اور جنس کی ترازو میں کیوں تولا جائے؟
بس یہی ہیں اطوار لڑکوں کے، وہ سمجھتے ہیں کہ ہر لڑکی پہ ان کا پیدائشی حق ہے۔
تو ان کی بہن بھی تو ہوتی ہوگی نا، بھانجی منہ لٹکا کر بولی۔
ہوتی ہے لیکن اسے گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی۔۔ اس لیے کہ وہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ وہ اور ان کے دوست کیا سوچتے ہیں اور کیا کرتے ہیں؟ سو فارمولا ایک ہی ہے، اپنی عورت کو چھپاؤ، دوسرے کی عورت کو چیر پھاڑ دو۔۔ ماموں افسردہ تھا۔
تو کیا اس کا حل یہ ہے کہ عورت کو قید کر دیا جائے؟ اس کی زندگی پابندیوں کی نظر ہو؟ آخر اس کا کوئی اور حل تلاش کیوں نہیں کیا جاتا؟ بھانجی نے سوال کیا۔
وہ کیا؟
ہر مرد۔۔ ہر عمر، قبیل اور معاش کا مرد یہ طے کرلے کہ وہ کبھی بھی کسی بھی قیمت پر کسی بھی لڑکی کے متعلق دوسرے مرد سے بات نہیں کرے گا۔ وہ اسے اپنے جیسا انسان سمجھے گا ہمیشہ، صنفی فرق درمیان میں نہیں آئے گا۔
ہر مرد؟
کیسے رکے گا ہر مرد؟
کون روکے گا اسے؟ ماموں نے پوچھا۔
ہر مرد دوسرے مرد کو منع کرے۔۔ احتجاج کرتے ہوئے۔۔ دوست کا بائیکاٹ کرکے۔۔ ایسی محفل چھوڑ کے جہاں اس طرح کی گفتگو ہو رہی ہو۔ ان باتوں کو نارمل نہ سمجھنے کی عادت ڈالتے ہوئے۔۔ ایسی سب کتابوں، محفلوں، جملہ بازیوں سے منہ موڑ کے۔ انگلی اٹھا کر کہتے ہوئے کہ یہ غلط ہے۔
جیسے دیکھیں یہ پیراگراف جو ایک صاحب نے آپ بیتی میں لکھا۔۔
"ایک لڑکی ریسٹورنٹ میں داخل ہوئی جس نے کالا اپر پہنا ہوا تھا، ایک بھائی نے مجھے باتیں کرتے ہوئے بازو سے کھینچا اور کہا کہ "علی بھائی! آپ کے والی آ گئی"۔
ہمیں فوراً سمجھ نہیں آئی تو پوچھا "کون؟"
آنکھوں سے اشارہ کیا کہ وہ کالے والی۔
واقعی اس معصوم لڑکی کو کچھ خبر نہیں تھی کہ اس کے بارے کیا بات ہو رہی ہے؟
نعیم بھائی مسکرا کر کہہ رہے تھے کہ نہیں نہیں علی بھائی، ایزی رہیں، مجھے پتا ہے، دوست ایسے ہی ہوتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایزی کیوں رہا جائے؟ مخرب اخلاق گفتگو سن کے شرمندہ کیوں نہ ہوا جائے؟ شرمندگی کے احساس کو دوستی کے لبادے میں چھپا کر اس کی سنگینی کیوں کم کی جائے؟
ایسے لوگوں کی زبان کو کیوں نہ روکا جائے جو کسی بھی لڑکی کو دیکھ کر بے قابو ہوتے ہوئے اپنی فرسٹریشن انڈیل کر سمجھتے ہیں کہ بس ہم تو شغل کر رہے تھے۔ وہ ہنسی مذاق جو عورتوں سے زندگی کے ہر پل کا خراج لیتا ہے۔۔ بھانجی نے سنجیدگی سے تفصیلا جواب دیا۔
بارش کا پہلا قطرہ کون بنے گا؟ کون مرد کو یہ بتائے گا؟ ماموں نے پوچھا۔
معاشرے کا ہر فرد۔۔ بھانجی کا جواب۔
دوسرا واقعہ۔
کمرے سے ٹھاہ ٹھاہ دھائیں دھائیں کی آوازیں آ رہی ہیں۔ گھر میں موجود ہیلپر پریشان ہو کر دوڑی آتی ہیں، چھوٹے میاں کے کمرے میں کچھ مار کٹائی ہو رہی ہے چل کر دیکھیں۔
ماں اپنا کام جاری رکھتے ہوئے جواب دیتی ہے، غصہ آ گیا ہوگا کسی بات پر۔
مگر آوازیں کیسی ہیں؟
بھئی پیٹ رہا ہوگا۔
کسے؟ کوئی زخمی نہ ہو جائے۔۔ وہ بوکھلا کر کہتی ہیں۔۔
ماں ہنس پڑتی ہے۔۔ ارے نہیں بھئی، وہ پنچنگ بیگ کو پیٹ رہا ہے۔۔ غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے۔
ہیلپر بی بی کچھ ناسمجھی کی کیفیت میں سر ہلاتے ہوئے وہاں سے چلی جاتی ہیں۔
تھوڑی دیر بعد کمرے کادروازہ کھلتا ہے۔ چھوٹے میاں لال بھبھوکا چہرے کے ساتھ برآمد ہوتے ہیں۔ ماں دیکھ کر ہنس پڑتی ہے، آج کس پہ غصہ آیا جناب؟
بلوغت سے گزرتا لڑکا چپ رہتا ہے۔ ماں پھر پوچھتی ہے، بتاؤ تو؟
دوستوں سے لڑائی ہوگئی، سر جھکا کر جواب ملتا ہے۔
کیوں؟ ماں استفسار کرتی ہے۔
لڑکیوں پہ، آہستہ آواز میں جواب۔
ہائیں لڑکیوں پہ، ماں چونک جاتی ہے، کونسی لڑکیاں؟
کلاس فیلوز، دھیمی آواز میں جواب۔
کیا ہوا ان لڑکیوں کو؟ اور دوستوں کے بیچ لڑکیاں کہاں سے آ گئیں؟ ماں کا دل ہولنے لگا۔۔
امی۔۔ لڑکیوں کو کچھ نہیں ہوا مگر میرے دوست اور کلاس فیلوز، وہ کہتے کہتے رک گیا۔
ہاں ہاں کہو، ماں بے تابی سے بولی۔
امی وہ سب لڑکیوں کو discuss کرتے ہیں۔۔ ہر وقت۔۔ کپڑوں سے لے کر۔۔ تک۔۔ وہ سر جھکا کر بولا۔
اوہ، ماں کا دل دھک سے رہ گیا۔
مجھے بہت برا لگتا ہے امی۔۔ میں انہیں روکتا ہوں۔۔ اور وہ سب میرا مذاق اڑانے لگتے ہیں، وہ دل گرفتہ نظر آ رہاتھا۔
تمہیں کیوں برا لگتا ہے؟ ماں نے پوچھا۔
امی۔۔ لڑکیاں ہماری طرح انسان ہیں۔۔ انہیں ہر وقت جنسی ترازو پہ تولنا، کہاں کا انصاف ہے یہ؟ اور یہ لڑکے یہ نہیں سوچتے کہ کہیں اور، کوئی اور لڑکا ان کی بہن یا ماں discuss کر رہا ہوگا۔
بس آج میں نے سوچ لیا کہ میں فالتو وقت میں ان کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا۔ اگر اپنی آئیڈیالوجی کے لیے میں قربانی نہیں دوں گا تو کیا فائدہ اس آئیڈیالوجی کا؟
سولہ سترہ برس کے لڑکے کے منہ سے یہ بات سن کر ماں سوچ رہی تھی کہ کاش یہ بات وہ سب بھی سیکھ لیں جو باہر جاکر نیلے والی تیری، پیلے والی میری کی گردان کرتے ہیں اور گھر میں اپنی بہن کو سات پردوں میں چھپانا چاہتے ہیں۔
اگر آپ نے ابھی تک علی گل پیر کا گانا تاڑُو ماڑُو نہیں سنا تو سن لیجیے، خاصے کی چیز ہے۔