Saturday, 29 June 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Tahira Kazmi
  4. Aur Burhapa

Aur Burhapa

اور بڑھاپا

وٹرنری ڈاکٹر تو ہم ہیں نہیں کہ گھوڑے کا حال احوال جانیں مگر وہ زبان زد عام محاورہ تو آپ سب نے سن ہی رکھا ہوگا نا، مرد اور گھوڑا کبھی۔ جی جناب اس محاورے کی بنیاد نہ جانے خوش فہمی کے کس غبارے پہ رکھی گئی ہے؟ ، اور گھوڑے غریب کو اس میں کیوں شامل کیا گیا یہ بھی علم نہیں؟ ، خیر پوچھیں گے بھئی کسی دن وٹرنری ڈاکٹر سے۔

تو جناب، یار لوگ اس کو دہرا کر سمجھتے ہیں کہ مرد کی شان بڑھ گئی۔ اور دوسری شادی کا فتور پالنے والے کندھے اچکا کر کہتے ہیں، دیکھا، یہ ہم ہیں ہم، پچاس کے ہوں یا ساٹھ کے، کہاں فرق آیا ہم میں؟ ویسے کے ویسے جیسے پچیس برس پہلے تھے، ستے خیراں، کیا فرق پڑتا ہے اگر دلہن اٹھارہ سے بھی چھوٹی ہوئی۔

زیادہ ضرورت کا شور مچانے والوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ کیا کریں بھئی، ایک پہ اکتفا کیسے کریں؟ کبھی اقرار الحسن کو رشک سے دیکھتے ہیں تو کبھی کسی اور کو۔۔

اب چاہے اندر کا حال یہ ہو کہ دال دلیہ بھی مشکل سے پورا ہوتا ہو اور گھر والی وہ گیت گاتی ہو، جا اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کے سو جا۔۔

اب کون پوچھے ان پچاس پچپن کے بالکوں سے کہ منزل تک کے کھٹن مراحل کیسے طے ہوتے ہیں؟ ہوتے بھی ہیں کہ نہیں؟ کہیں گھڑی دو گھڑی کا معاملہ تو نہیں؟ اور کیا اتنا بھی ان دوا ساز کمپنیوں کا سہارا ہے جن کی بنائی ہوئی دوا دھڑا دھڑ بکتی ہے۔

چلیے ویاگرا تو ماڈرن دوا ٹھہری، بازاروں میں مجمع اکھٹا کرکے سلاجیت بیچنے والوں کی کمی بھی کبھی نہیں رہی اور ہمدرد دوا خانے کی گولیاں اور مرہم تو انتہائی سستا نسخہ ہیں۔

اگر اس بات پر یقین نہ آئے تو ہردوسری سڑک کے کنارے بنی دیواروں پر، حکیم جالینوس، بنگالی بابا، پہاڑی بابا اور نہ جانے کون کون سا بابا، اور ان کے دعوے تو بچے تک اپنے بچپن میں پڑھ کر ماؤں سے سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ وہی کمزوری ہے جو کھانا نہ کھانے سے ہوجاتی ہے؟

مسلہ کیا ہے آخر؟

دماغ جناب دماغ۔ جس میں موجود فتور ماننے نہیں دیتا کہ اب ان تلوں میں تیل نہیں۔ رخصت ہوتی بہار میں اپنی انا اور مردانگی کو بھرپور جنسی تعلق سے ثابت کرنے کی کوشش کرنا، چاہے گوڈے گٹے پناہ مانگ رہے ہوں، یہ دیوانگی نہیں تو اور کیا ہے؟

وجہ کیا ہے؟

طبعی طور پہ جنسی تعلق کی خواہش دماغ میں جنم لیتی ہے۔ دماغ سے نکلنے والی نروز مقررہ مقام تک پہنچ کر یہ پیغام پہنچاتی ہیں کہ دماغ کیا چاہتا ہے؟ مقررہ اعضا میں اگر حکم بجا لانے کی ہمت ہو تو دال دلیے جیسا کام تو ہو ہی جائے گا۔۔ نہ ہو تو معذرت کا پیغام بھیج کے اعضا سر نہوڑے بیٹھے رہیں گے، آپ چاہے لاکھ برسائیے خواہش کا چابک، لیکن جب سکت ہی باقی ہی نہ ہو تب مردہ گھوڑا کیسے دوڑ سکتا ہے؟ ہاں ایسا ہو سکتا ہے کہ چابک کی چھمک سے ابتدائی آثار پیدا ہوں مگر پھر

بقول سلیم احمد

گاڑی چلتی نہیں، گر جاتا ہے سگنل

ایسی صورت میں ذہن مانتا ہی نہیں کہ ہم کھلاڑی سے اناڑی بن چکے، مرادنگی پہ چوٹ لگتی ہے نا۔۔ ایسے میں چلتا ہے وحشت کا کھیل۔

نویدہ کوثر جی لکھتی ہیں۔۔

" کل ایک بہت امیر فیکڑی مالک کی بیگم ماسک لیے آیئں۔۔ ماسک لینے کی وجہ یہ تھی کہ سارے چہرے پہ دانتوں کے کتوں کی طرح کاٹنے کے نشان تھے۔۔ زبان اتنی متاثر کہ مشکل سے بات سمجھ آتی۔۔ سارا جسم کٹا پھٹا۔۔ پائیوڈین لگائی ھوئی۔۔ تین چار جگہ تو ٹانکے لگنے تھے۔۔ ایک بچی بارہ سال اور بچہ دس سال کا ہے۔۔ ان کو بھی شوہر پانی کے پائپ سے مارتے ہیں۔۔ پورن اور رسی۔۔ برف۔۔ سگریٹ لگانے کااستعمال ہمیشہ ھوتا ہے۔۔ شکر ہے سال کے چھ ماہ باہر دفتر چلاتے ہیں تو شادی اتنی دیر چل گئی مگر اب لگتا ہے شاید نہ چلے۔۔ غیر ملکی طوائفوں کے سارے ہنر بیوی سے توقع کرتے ہیں۔۔ تیز بخار اور انفکشن زدہ زخم۔۔ یہ کوئی افسانہ نہیں کل میرے بیڈروم کاسنا سچاواقعہ ہے"

خیر، ہمیں بھی ایک واقعہ یاد آگیا۔۔ ٹھہریے ایک نہیں دو، ایک تو جنم بھومی پنڈی کا ہے اور دوسرا استاد محترم منٹو لکھ گئے ہیں۔۔

کچھ برس پہلے اخبار کی وساطت سے علم ہوا کہ ایک محترم بیوی کی ویجائنا میں لوہے کی راڈ رکھ کر کرنٹ چھوڑتے تھے۔ بیوی جب جب تڑپتی تھی، تب تب مضمحل عضو میں زندگی کی رمق دوڑنے کا شائبہ ہوتا تھا۔

موصوف پکڑے گئے، جیل ہوئی مگر پھر چُھڑا لیے گئے۔ وطن عزیزمیں ایسوں کی کمی نہیں جو عورت کے ساتھ کئے گئے کسی بھی ظلم کو چیونٹی مارنے سے زیادہ اہم نہیں سمجھتے۔

اور منٹو کی شاداں کا قصہ بھی سن لیجیے۔

"خان بہادر کی بیوی اپنے شوہر کے کمرے میں گئی جو کہ خالی تھا مگر بتی جل رہی تھی۔ بستر پر سے چادر غائب تھی۔ فرش دھلا ہوا تھا، ایک عجیب قسم کی بو کمرے میں بسی ہوئی تھی۔ خان بہادر کی بیوی چکرا گئی کہ یہ کیا معاملہ ہے، پلنگ کے نیچے جھک کر دیکھا مگر وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ لیکن ایک چیز تھی، اس نے رینگ کر اسے پکڑا اور باہر نکال کر دیکھا، خان بہادر کی موٹی مسواک تھی۔

پندرہ سالہ شاداں جب گھر پہنچی تو لہولہان تھی، وہاں پہنچتے ہی بے ہوش ہوگئی۔ ماں باپ ہسپتال لے گئے۔ شاداں کو ایک لحظے کے لئے ہوش آیا، اس نے صرف "خان بہادر" کہا، اس کے بعد ایسی بے ہوش ہوئی کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سو گئی۔

جرم بہت سنگین تھا۔ استغاثے کے پاس کوئی عینی شہادت موجود نہیں تھی۔ ایک صرف شاداں کے لہو میں لتھڑے ہوئے کپڑے اور وہ دو لفظ جو اس نے مرنے سے پہلے کہے۔ ساتھ میں ایک گواہ جس نے شاداں کو شام کے وقت خان بہادر کے گھر کی طرف جاتے دیکھا تھا۔

صفائی کے گواہ صرف دو تھے۔ خان بہادر کی بیوی اور ایک ڈاکٹر۔ دونوں کے مطابق خان بہادر اس قابل ہی نہیں کہ وہ کسی عورت سے ایسا تعلق قائم کر سکے۔

خان بہادر رہا ہو گئے۔ بری ہو کر جب گھر آئے تو ان کی زندگی کے معمول میں کوئی فرق نہ آیا۔ ایک صرف انہوں نے مسواک کا استعمال چھوڑ دیا "

ادھیڑ عمر مرد جس نے خواہش کا آتش فشان تو پال رکھا تھا مگر بقول بیوی تلوں میں تیل ختم ہو چکا تھا۔ بجائے اس کے کہ وہ اس حقیقت کو قبول کرتا، اس نے وحشت میں مسواک کا سہارا لے کر وہ کرنے کی کوشش کی جو پنڈی واکے صاحب لوہے کی راڈ سے کر رہے تھے۔

لیکن زمانہ تو کہتا ہے کہ منٹو جھوٹ بولتا ہے۔

جی۔۔ ایسا جھوٹ جس کے سامنے سچ منہ چھپاتا ہے۔

Check Also

Bhutto Be Qasoor Tha

By Gul Bakhshalvi