Aath Sala Zahra Shah Banam Pyari Maa
آٹھ سالہ زہرہ شاہ بنام پیاری ماں
پیاری اماں!
مجھے بہت دور جانا ہے بہت دور!
ایک مہربان صورت والے انکل مجھے لینے آئے ہیں، انہوں نے میری انگلی تھام لی ہے۔ لیکن میں تمہیں دیکھے بنا نہیں جانا چاہتی تھی اماں! ایک دفعہ، آخری دفعہ تمہاری صورت دیکھنے کی، تمہاری آغوش میں آنے کی تمنا تھی۔
انکل نے مجھے بتایا کہ میں اب تم سے گلے نہیں مل سکتی، میرے اور تمہارے درمیان دو دنیاؤں کا فاصلہ حائل ہے، میں تم سے جدا ہو چکی ہوں۔ پھر میرے منہ بسورنے پہ انہیں ترس آ گیا اور انہوں نے مجھے اجازت دی کہ میں تمہیں دور سے دیکھ لوں اور دل ہی دل میں خدا حافظ کہوں۔
میں نے تمہیں لڑکھڑاتے قدموں سے آتے دیکھا، تمہاری رنگت پیلی پڑ چکی تھی اور تم جھکی کمر کے ساتھ پاؤں گھسیٹ رہی تھیں۔ تم اس جگہ آئیں جہاں مجھے لٹایا گیا تھا۔ منہ سے کپڑا ہٹایا اور چیخ مار کے غش کھا بیٹھیں، نہیں، نہیں، یہ میری زہرہ نہیں ہے۔
اماں وہ میں ہی تھی! تمہاری زہرہ!
غور سے دیکھتیں تو، سوجے منہ اور متورم زخمی آنکھوں کے پیچھے میں ہی تھی تمہاری زارو!
شاید پہچان اس لئے ماند پڑی کہ جبڑا اور دانت بھی تو ٹوٹ گئے تھے۔ ناک کا بانسہ ٹیڑھا ہوگیا تھا اور کنپٹی تھوڑی سی پچک گئی تھی۔ بہت دل چاہا کہ تمہارا ہاتھ پکڑ لوں، لیکن ہاتھ کی ہڈیاں تو کچلی گئی تھیں اور ہنسلی کی ہڈی بھی ٹوٹ گئی تھی۔ زبان بھی لہو لہو تھی سو کیسے بتاتی تمہیں کہ اماں یہ میں ہی ہوں، تمہاری زارو!
اماں! چار ماہ پہلے جب تم سے جدا ہوئی تو تم سب کی بہت یاد آتی تھی اور جب جب یاد آتی تھی نا، مجھے رونا آ جاتا تھا۔ لیکن اماں مجھے رونے سے ڈر لگتا ہے۔ ہاں اماں، جب پہلی دفعہ سسکیاں بھری تھیں نا تو دونوں گالوں پہ ایسے زور کے تھپڑ کھائے تھے کہ پانچوں انگلیوں کے نشان ابھر آئے تھے۔ انہی پھولے پھولے گالوں پہ جہاں تم مجھے بے اختیار ہو کے بوسے دیا کرتی تھیں۔
اماں مجھے گھر کا آنگن یاد آتا تھا، جہاں میں بھیا کے ساتھ کھیلا کرتی تھی۔ وہ درخت جس پہ میں جھولا جھولتے جھولتے گر پڑتی تھی اور تم دور سے اس فکر میں دوڑ پڑتی تھی کہ چوٹ تو نہیں لگی۔ اب پچھلے چار ماہ سے ہر روز چوٹ لگتی تھی لیکن تم مجھے بچانے کو آئیں ہی نہیں۔ تمہیں خبر ہی نہیں ہوئی کہ تمہاری زارو کا بدن زخم زخم ہے۔
اماں مجھے سمجھ نہیں آتا تھا، میں ڈھیر سارے کام کیسے کروں؟ میں بہت کوشش کرتی لیکن پھر بھی کچھ غلط ہو جاتا تھا۔ برتن دھوتے کبھی کوئی پلیٹ گر جاتی اور کبھی کوئی گلاس ٹوٹ جاتا۔ کیا کرتی، میرے ہاتھ بھی تو چھوٹے تھے نا۔ جب بھی کچھ ٹوٹتا، مجھے بہت مار پڑتی۔ تھپڑ، ٹھڈے، لاتیں اور گالیاں۔ اماں مجھے بہت درد ہوتا تھا، میں خاموش آواز میں روتی تھی۔
اماں کیا ہم غریب ہیں؟ بیگم صاحبہ ہر وقت مجھے کہتی تھی کہ انہوں نے میری غربت پہ ترس کھا کے مجھے اپنے گھر رکھا ہے۔ یہ غربت کیا ہوتی ہے؟
اماں، میں ہر وقت منےکو اٹھائے رکھتی لیکن وہ بہلتا ہی نہیں تھا۔ وہ جب بھی روتا، مجھے پھر مار پڑتی کہ میں اپنا کام ٹھیک سے نہیں کرتی۔ اماں، گھر میں بھیا تو بہت خوش ہوتا جب میں اسے اٹھا کے گھومتی رہتی تھی۔ یاد ہے چاچا نے تبھی تو بابا کو کہا تھا کہ زارو بھائی کا خوب خیال رکھتی ہے، اسے میرے ساتھ بھیج دو۔ مفت کا کھا کے پل بڑھ بھی جائے گی اور چار پیسے بھی ہاتھ میں آئیں گے۔
اماں! ابا کو بتا دینا کہ مجھے بیگم صاحبہ اور صاحب کا بچا کھچا کھانے کو ملتا تھا، کچھ روٹی کے ٹکڑے اور بنا بوٹی کے ہڈیاں۔ پیٹ نہیں بھرتا تھا لیکن کیا کرتی۔ ایک دن منے کا بچا ہوا کیلا کھا لیا تھا تو میرے بال اس زور سے بیگم صاحب نے کھینچے تھے کہ ابھی تک درد ہے۔ شاید درداس لئے نہیں جاتا کہ وہ میرا سر دیوار سے بھی تو ٹکرا دیتی تھی، جگہ جگہ گومڑ ابھرے ہیں، دیکھنا ذرا۔
اماں کیا ابا میرا سوتیلا باپ ہے؟ مجھے تم سے دور کر دیا، بھیا اور گھر بھی جدا ہو گئے۔ ماں باپ تو بچوں سے پیار کیا کرتے ہیں نا جیسے یہ لوگ منے کی محبت میں اس کی خاطر مجھے لے آئے تھے۔ اماں کاش تم ابا کی بات نہ مانتیں۔
اماں ایک بات بتاؤں! مجھے صاحب سے بہت ڈر لگتا تھا۔ وہ اچھا آدمی نہیں تھا اماں۔ منا اور بیگم صاحب کے سو جانے کے بعد وہ اس چھوٹے سے کمرے میں آ جاتا جہاں میں سوتی تھی۔ اماں مجھے بہت ڈر لگتا، بہت درد بھی ہوتا، لیکن اماں وہ کہتا تھا کہ اگر میں نے کسی کو بتایا تو وہ میرا گلا گھونٹ دے گا اور میں مر جاؤں گی۔ میرے مرنے پہ اس کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ کیا واقعی اماں، میری جان کی کوئی قیمت نہیں!
لیکن میں تم سے ملے بنا نہیں مرنا چاہتی تھی۔ میرا دل چاہتا تھا کہ تم پھر سے میرا منہ دھلواؤ، مجھے صاف فراک پہناؤ، میرے بالوں کی دو چوٹیاں بنا کے ان میں ربن لگاؤ، میری آنکھوں میں سرمہ لگاؤ، میرے منہ پہ کریم لگاؤ، پھر میرا منہ چومتے ہوئے کہو، میری زارو، میری شہزادی!
اماں! اس گھر میں میرے دو دوست بھی تھے جو مجھ سے پیار کرتے تھے۔ کیا بتاؤں وہ کتنے پیارے تھے، رنگ برنگے، ٹیں ٹیں کرتے توتے۔ اماں جب مجھے مار پڑتی تو وہ بھی سہم کے چپ ہو جاتے۔ پھر جب میں باہر جا کے ان کے پنجرے کے پاس بیٹھ کے روتی تو پہلے وہ میرے ساتھ روتے، پھر زور زور سے شور مچاتے تا کہ ان کے شور میں میری سسکیاں دب جائیں اور گھر کے اندر میری آواز نہ جائے۔ بیگم صاحب کو میرا رونا پسند نہیں تھا نا۔
وہ توتے مجھے چپ کرانے کے لئے پنجرے میں قلابازیاں کھانا شروع کر دیتے تاکہ میں بہل جاؤں۔ میرا انہیں پیار کرنے کو جی چاہتا بالکل ویسے ہی جیسے میں چھوٹے بھیا کو کیا کرتی تھی۔
اماں کل رات انہوں نے پروگرام بنایا کہ ہم تینوں باہر جا کے کھیلیں گے، دور آزاد فضاؤں میں اڑیں گے اکھٹے۔ بس مجھے ان کے پنجرے کا دروازہ کھولنا تھا۔ میں ان کی بات کیسے ٹالتی، مجھے بھی تو باہر جانا تھا نا۔ میں نے پنجرے کا دروازہ کھول دیا، وہ آزاد فضاؤں میں گم ہو گئے اور میں، میں بھی آزاد ہوگئی۔
زہرا شاہ!
تم نے ہماری کوکھ سے جنم تو نہیں لیا لیکن پچھلے دو دن سے اس میں ٹیسیں اٹھتی ہیں، درد بھری، کرب انگیز جو ہمیں سونے نہیں دیتیں، کسی کل چین نہیں لینے دیتیں۔ بھوک پیاس اڑ گئی ہے، انگارے بھری سوچیں تن من کو سلگائے جاتی ہیں۔
نہ جانے حسن صدیقی کا دل سنگ سیاہ سے بنا تھا یا تمہیں کام پہ بھیجنے والے کا۔ ہم اپنے تخیل کو جتنا چاہے، مجبور کر لیں وہ ان معمولات کا احاطہ ہی نہیں کر پاتا جو کوئی آٹھ سالہ بچہ ماں باپ سے جدا ہو کے کر سکتا ہو۔
جی چاہتا ہے حسن صدیقی کے خاندان، احباب اور ہمسایوں کو اکھٹا کروں اور ایک ایک سے پوچھوں کہ کیا انہیں کبھی وہ ننھی بچی نظر نہیں آئی؟ کیا کسی نے چائلڈ لیبر کے خلاف اپنا احتجاج رقم کیا؟ کیا کبھی کسی کو آٹھ سالہ زہرا شاہ پہ رحم آیا اور حسن صدیقی کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی؟
اگر آپ کا دل زہرا شاہ پہ ہونے والے ظلم سے کانپ نہیں اٹھتا تو اپنے گھر میں اپنے کم عمر بچے کو دیکھیے اور تصور میں زہرا کی جگہ کھڑا کر دیجیے۔ ایسا کرنا مشکل لگے تو خود کو آٹھ سالہ تصور کرکے وہ سب محسوس کیجیے جو زہرا پہ بیت گئی۔ شاید آپ کی وہ آنکھ بیدار ہو جائے جس سے آپ کے گرد ونواح میں کوئی اور زہرا شاہ، آپ کی مدد سے بچ جائے۔
چائلڈ لیبر کے خلاف جنگ شروع کیجیے، اپنے گھر سے، محلے سے، خاندان سے۔ یقین جانیے، حق کی آواز بلند کرنے کے لئے ایک آواز ناکافی نہیں ہوا کرتی، ظلمت کے اندھیرے یونہی چھٹا کرتے ہیں۔ اپنے حصے کا چراغ جلا ڈالیے، اگر آگ ناکافی ہو تو ہمارے دل سے نکلنے والی چنگاریاں مستعار لے لیجیے۔