40 Saal Pehle Ka February
چالیس برس پہلے کا فروری
سال کا آغاز تو جنوری سے ہوتا ہے مگر ہمیں اچھا لگتا ہے فروری، بہت بہت اچھا،۔ آج نہیں بلکہ زمانوں سے۔ آپ سوچیں گے شاید سرما کی شدت ختم ہونے کے آثار سے؟
یا شاید بسنت کے تہوار سے؟ کسی کا جنم دن؟ شاید؟ شاید؟
نہیں ایسا کچھ بھی نہیں، پھر بھی ہمیں لگتا ہے کہ زندگی کا آغاز فروری سے ہوا تھا۔
وہ فروری کا وسط تھا۔ دن آہستہ طویل ہو رہے تھے، سرمئی شام کچھ دیر سے سامنے آتی تھی، سورج کی تمازت میں تیزی آنے لگی تھی۔
گھر میں سب روزمرہ کے دن گزار رہے تھے۔ ابا دوپہر کو دفتر سے گھر آتے، شام کو کتابیں پڑھتے، امی دوپہر کے کھانے سے فارغ ہو کر اپنی سلائی مشین پر بیٹھ جاتیں، گھررگھرر کی آواز گھر میں گونجنے لگتی جب تک شام کی اذان نہ ہو جاتی۔
آپا کے ہاں خوشخبری آنے والی تھی سو وہ میٹرنٹی لیو پر تھیں، لیٹ کر کتابیں پڑھتی رہتیں۔ چھوٹی بہن صحن میں ابا کی سائیکل قینچی بنا کر چلاتی اور چھوٹا بھائی اس کے پیچھے بھاگتا رہتا۔ ہم تھے ان دنوں استانی سو سکول سے واپس آکر قصے کہانیوں میں وقت گزارتے۔ مگر کہیں اندر سے ایک آواز سنائی دیتی رہتی، فروری آ گیا، فروری میں اعلان ہونا ہے، فروری میں پتہ چلنا ہے کہ،؟
ابا دفتر سے گھر آ کر ڈیوڑھی میں سائیکل کھڑی کرتے تو سب جان لیتے کہ ابا آ گئے۔ سب ابا کو سلام کرتے، ہم بھی، مگر ہمارا سلام کچھ مختلف ہوتا۔ ہم ڈیوڑھی تک بھاگ کر جاتے، زور سے سلام کرتے، وہ جواب دیتے، مزید نہ وہ کچھ کہتے نہ ہم، جانتے دونوں تھے کہ یوں ڈیوڑھی تک بھاگ کر آنے کے پیچھے کیا چھپا تھا؟
وہ چپ کرکے اپنے کمرے میں چلے جاتے اور ہم گھر کے کسی بھی کونے کھدرے میں بیٹھ کر سوچتے، آج بھی نہیں؟
ابا کمرے سے نکلتے ہوئے ہمیں دیکھتے مگر چپ رہتے، کیا کہتے جب کچھ تھا ہی نہیں۔
ہم اپنے آپ کو سمجھاتے، فروری گزرا تو نہیں، ابھی تو وسط ہے۔ وقت ہے ابھی، پتہ چل جائے گا۔۔ کس بات کی بے چینی ہے؟
اگر، اگر؟ نہ ملا تو؟ دل بے تاب سوال کرتا۔
ایسانہیں ہوگا، تم انتظار تو کرو، دماغ جھنجھلا کر جواب دیتا۔
فروری کا تیسرا ہفتہ آن پہنچا تھا۔ ہم ابا کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے تھک چکے تھے سو ایک دن پوچھ ہی لیا۔
ابا لاہور سے کوئی فون آیا؟
نہیں۔
ابا، آپ ہی فون کرکے پوچھ لیں۔
میں نے کہا ہوا ہے کہ جونہی کوئی اطلاع ملے، دیکھ کر ہمیں بتا دیں۔ ان سب کے بیٹے وہیں تو پڑھتے ہیں،۔ ابا دھیمی آواز میں بولے۔
یہ قصہ اکتوبر میں شروع ہوا تھا جب ہماری درخواست لاہور بھیجی گئی تھی۔ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ ان دنوں پنجاب کے تمام میڈیکل کالجوں میں داخلے کی کتابچہ نما درخواست ہیلتھ سیکریٹریٹ لاہور میں جمع کروائی جاتی تھی جہاں یہ فیصلہ ہوتا تھا کہ کونسا امیدوار کس میڈیکل کالج میں جائے گا؟
یہ فیصلہ کرنا دشوار ہوتا ہوگا کیونکہ ہر امیدوار کی ترجیحات مختلف تھیں کسی کو کنگ ایڈورڈ چاہیے تھا تو کسی کو نشتر۔ عموما لوگ اپنے شہر کے میڈیکل کالج میں جانا پسند کرتے تھے کہ ہوسٹل نہ جانا پڑے۔ پھر ان ترجیحات کو ان امیدواروں کے میرٹ سے میچ کرکے دیکھا جاتا تھا کہ زیادہ نمبر والے کی خواہش کیا ہے؟
ان دنوں میڈیکل کالج میں لڑکیوں کے لیے داخلہ مزید مشکل تھا کہ اوپن میرٹ نہیں تھا۔ لڑکیوں کے لیے ہر میڈیکل کالج میں دو سو میں سے بیس سیٹیں رکھی جاتی تھیں اور باقی لڑکوں کے لیے مختص تھیں۔ اب حساب لگا لیجیے، چھ میڈیکل کالجوں کو ضرب دیجیے بیس سے، ایک سو بیس اور ساتواں میڈیکل کالج جو لڑکیوں کا تھا، اس میں دو سو سیٹیں۔ سو کل ملا کر پورے پنجاب میں سے تین سو بیس لڑکیوں کو یہ اعزاز حاصل ہونا تھا کہ وہ ڈاکٹر بن سکیں۔
سو روز بروز دل سہمے جاتا تھا کہ خواب کے رستے پر چلنا ممکن ہوگا کہ نہیں؟
فروری کے آخری دنوں کی سہ پہر تھی۔ ہم حس معمول کسی کتاب میں سر دئیے بیٹھے تھے جب ابا کی سائیکل کی آہٹ محسوس ہوئی، شاید آج، دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ ہم نے کتاب ایک طرف رکھ دی اور ڈیوڑھی کی طرف قدم اٹھائے۔ ابا ڈیوڑھی میں سائیکل کھڑی کرکے برآمدے میں آ چکے تھے۔ ہمارا وہم تھا شاید کہ آج چہرہ کچھ تمتمتایا ہوا تھا، دھوپ تیز تھی شاید، اور دفتر سے سائیکل چلا کر گھر آئے ہیں تو تھک گئے ہوں گے۔۔
اتنی دیر میں ابا اونچی آواز میں بولے۔۔ لاہور سے فون آیا تھا۔
کیا؟
لاہور سے فون؟
کیا وہی فون؟
ہم نے بے چینی سے ابا کی طرف دیکھا، ابا دھیرے سے مسکرائے۔
لسٹ لگ گئی، ہوگیا داخلہ۔۔
ہوگیا؟ ہوگیا؟
کہاں؟
کس نے بتایا؟
امی فوراباورچی خانے سے نکل آئیں۔ چہرہ دمک رہا تھا۔ سب ابا کے گرد جمع ہو گئے، ہاں بھئی وہ لاہور سے تقی شاہ کا فون آیا تھا، ان کا بیٹا دیکھ کر آیا ہے لسٹ، فاطمہ جناح میں نام آیا ہے۔
اوہ، پنڈی میڈیکل کالج میں نہیں ملا؟ امی نے پوچھا۔
نہیں، یہاں لڑکیوں کی صرف بیس سیٹیں تھیں، اگلی چوائس تو لاہور ہی تھی نا، ابا نے کہا۔
لاہور تو ہوسٹل میں رہنا پڑے گا۔۔ امی نے پوچھا
ظاہر ہے، کسی رشتے دار کے گھر تو میں مناسب نہیں سمجھتا، ابا بولے
پانچ برس، امی کی متفکر آواز۔
اللہ مالک ہے۔۔ ابا کا جواب۔
آپا نے گلے لگایا۔ چھوٹی بہن بھائی اچھلنے لگے۔۔ ہماری ننھی ڈاکٹر بنے گی۔
میں اداس ہو جاؤں گی، آپا نے سرگوشی کی
میں بھی۔
ہم خوش تھے، بہت خوش۔ محنت رنگ لائی تھی۔۔ جو سوچا تھا وہ ہونے جا رہا تھا۔ کہیں کوئی رکاوٹ یا پابندی نہیں تھی۔ مالی حالات بھی مناسب تھے۔
اس شام ابا نے دیر تک ریڈیو بجایا۔ امی نے حلوہ بنایا۔
رہے ہم، تو ہم ہنس رہے تھے بات بے بات، بلاوجہ۔