Saeed Book Bank
سعید بُک بینک
آج کل بک سٹورز کی شامت آئی ہوئی ہے عوام ہاتھ میں کتاب میرا مطلب توپ لئے بس گولے ہی برساتی جا رہی ہے ہے کہ باہر کی بکس شاپس پر خریدی گئی بکس واپسی ایک مہینے بعد ممکن ہے تو یہاں واپس کیوں نہیں لی جاتیں۔ ویسے ہماری عوام بہت سیانی ہے، جو کتاب ایک دو دن میں پڑھی جا سکتی ہے تو اسے ایک ماہ بعد واپس کیوں کیا جائے یہ تو زیادتی والی بات یے۔
اسلام آباد میں کمرشل مارکیٹ میں مسٹر بکس وغیرہ سے میں نے بھی ایک آدھ بار بکس خریدنے کی کوشش کی ہے مگر قیمتیں میرے مطلب کی نہیں ملیں تو اگرچہ اوقات ابھی فٹ پاتھ پہ آنے کی نہیں مگر یہ کتابیں ہمیں فٹ پاتھ پر لے آئیں تو ہم بھی آ گئے اور اسلام آباد کی بکس شاپس سے کئی گنا کم قیمتوں پہ کتابیں خرید بھی لیں، مسئلہ یہ ہے کہ جو کتاب آپ کو فٹ پاتھ کی خواری سے نہ ملے وہ کتاب سعید یا مسٹر بکس وغیرہ پہ لازمی مل جاتی ہے فرق صرف لنڈے بازار اور برینڈڈ سٹورز کا ہے۔ پھر اس میں رونا دھونا کیسا۔
میرے خیال میں ان بکس سٹورز کو ایک آدھی قیمت والا کارنر بھی رکھنا چاھئے تاکہ ایک کتاب بار بار بیچی یا خریدی جا سکے تاکہ ہم جیسے غریب غرباء بھی فیض یاب ہو سکیں۔
یہاں گجرات میں دوران تعلیم اور اس کے بعد بھی کئی سالوں تک ہم اپنے شوق کی ایسی ہی آبیاری کرتے رہے ہیں کہ کتابیں خرید کر لے آئے اور آدھی قیمت پر واپسی بھی ہو جاتی تھی۔ بڑے اچھے دن تھے جب دکاندار خود بھی ذوق مطالعہ رکھتے اور بڑی خندہ پیشانی سے پیش آتے، ہمارے ذوق کا اندازہ لگا کر خود ہی بکس نکال کر دیتے یہ آپ کو پسند آئیں گی یہ لے جائیے انتہائی سستی کتابیں ہوتی تھیں ہم اپنی جیب خرچ سے آسانی سے افورڈ کر سکتے تھے۔ لائبریریز بھی تھیں جو یہی کام انتہائی کم قیمت پہ انجام دیتی تھیں۔ بہرحال یہ وہ دور تھا جب کتابیں سستی اور آسانی سے دستیاب تھیں۔
پہلے کتابوں کے ذریعے عوام کے دماغوں کو سینچا جاتا تھا آج کتابوں کو ہماری کمزوری سمجھ کر بیچا جاتا ہے۔ علم حاصل کرنا اب کمرشلائزڈ ہو چکا ہے تو ہم بےبس بھی ہیں اسی لئے ہمیں احساس محرومی بڑھ چکا ہے تو کوشش کرکے پہلے پیسے حاصل کریں پھر علم حاصل کریں اب علم حاصل کرکے پیسے کمانا اولڈ فیشن ہوگیا ہے ذہن نشین کر لیں۔