Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syeda Narjis Kazmi
  4. Khalis Log

Khalis Log

خالص لوگ

آج ایک کہانی آپ کیساتھ شئیر کرنے کو دل چاھتا ہے اور کہانی بھی ایسی ہے کہ جس کی سچائی کی میں خود گواہ ہوں۔ کہانی پڑھیں اور خود گواہی دیں کیا واقعی سچی ہے یا نہیں؟

جب بھی گھر میں کوئی غریب بہن بھائی آتا تھا تو میرے امی ابو سب سے پہلے اس کی خوب آو بھگت کرتے چائے، پانی، اچھا کھانا حقہ تمباکو جس کا بھی مہمان شوقین ہوتا وہ شوق پورا کیا جاتا۔ اس کے بعد مدعا بار، بار بہانے سے لازمی پوچھا جاتا اس وجہ سے نہیں کہ آئندہ وہ ہمارے گھر کا رخ ہی نہ کرے۔ بلکہ باتوں، باتوں میں ہنستے بولتے چھیڑنے والے انداز میں کہ سچی، سچی بتا آیا کیوں ہے یا آئی کیوں ہو۔ تم اتنے اچھے تو نہیں ہو کہ مجھ سے اداس ہو جاو اور ملنے چلے آو۔ ابو کا مقصد سامنے والے کی جھجھک دور کرنا ہوتا تھا تاکہ وہ اپنی ضرورت بیان کر سکے۔ بس کچھ دیر بعد ہی سامنے والے کا مدعا کھل کر سامنے آ جاتا تھا۔

آج سے 35 چالیس سال پہلے عرب ممالک کو یورپ جیسی اہمیت حاصل تھی، تو یہی مطالبہ ہوتا کہ اپنے بیٹوں کو کہیں میرے بیٹے کو بھی باہر اپنے پاس بلا لیں ساتھ ہی نظریں نیچی کرکے شرمساری سے کہا جاتا بھائی جان آپ میرے گھر کے حالات اچھی جانتے ہیں میں نے مجبور ہو کر درخواست کی ہے ابو کہتے یہ کیا اجنبیوں والی بات کی ہے نظریں اونچی کرکے بات کرو تو میرا بھائی ہے کوئی غیر نہیں یہ تیرا حق ہے اور تیری ضرورت پوری کرنا میرا فرض ہے۔ پیسوں کیلئے یہ بات طے کی جاتی کہ ابو اپنی اولاد کی ہی ذمہ داری لگاتے کہ اپنے خرچے کا حساب کتاب اس بچے سے باہر ہی کر لینا ابھی میری برادری کے غریب بہن بھائی اس قابل نہیں ہیں۔ کہ تمہیں رقم ادا کر سکیں۔

اس طرح صفر روپے کے سرمائے سے ہمارے رشتے دار دھیرے، دھیرے بیرون ملک منتقل ہونے لگے۔ بیرون ملک سے رقم لگتی اور بیرون ملک ہی چکا دی جاتی۔ گھروں کے حالات بدلنے لگے۔ کچے مٹی کے مکان خوبصورت کوٹھیوں میں بدلنے لگے گاڑیاں گیراج میں کھڑی ہونے لگیں رزق کی فراوانی سے چہروں پہ کھنڈی زردی سرخی میں بدلنے لگی۔

اصل میں ابو کبھی بھی کسی بہن بھائی کو چھوٹی، چھوٹی رقم کیلئے اپنے سامنے یا کسی اور کے سامنے ہاتھ پھیلاتا دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ اس کے برابر کھڑے ہو کر اس کا بازو بن جاتے تھے اسی لئے اس بات کے اختتام پہ پلاننگ شروع ہو جاتی اور ایک دو ماہ کے بعد ہی ساری برادری سنتی کہ فلاں بھی باہر چلا گیا۔

آج ان عرب ملکوں کے پاس پہلے جیسا سرمایہ نہیں ہے تو حالات بھی پہلے جیسے نہیں رہے ورنہ پاکستانیوں کیلئے یہی ملک یورپ تھے۔

آپ خود سوچیں اگر آپ کے خاندان کا کوئی بزرگ میرے ابو جیسا ہوتا اور آج کے دور میں ہوتا اور ان کے بیٹے امریکہ کینڈا ہوتے اور کوئی ان کے در پہ سوالی بن کے جاتا اور وہ میرے ابو جیسا ہی برتاو کرتا اور آپ کے بغیر پیسے لگائے امریکہ، کینیڈا، یورپ کے ویزے لگ رہے ہوتے تو آپ کیسا محسوس کرتے؟ اصل میں بات انسان کے خالص ہونے کی ہے، دور ہمیشہ ایک جیسا ہی رہتا ہے۔ میرے ابو خالص تھے ذرا بھی ملاوٹ نہیں تھی۔

اب آتے ہیں اس کہانی کی جانب جو میرے ابو اکثر ہمیں سناتے تھے اور جب ہم بار، بار سنانے کی وجہ پوچھتے تو کہتے جب تک تمہیں اچھی طرح ذہن نشین نہ ہو جائے سناتا رہوں گا۔

ایک دفعہ ایک شخص کے گھر کچھ مہمان آئے اس نے اپنی بیوی سے کہا: "میرے قریبی عزیز ہیں، رشتے دار ہیں ان کیلئے کھانا بناو"۔

بیوی بولی: "ایک تو میں تمہارے روز، روز کے رشتے داروں سے تنگ آ گئی ہوں، جاو مجھ سے نہیں ان کیلئے زہر بنتا۔ ان کو بولو یہاں سے دفع ہو جائیں"۔

شوہر شرمندگی سے سر جھکا کر مہمان خانے پہنچا تو رشتے دار نہ جانے کب کے ملے بناء ہی رخصت ہو چکے تھے شاید چیخ و پکار سے ضبط ہی نہ رہا ہو اور رخصتی کے آداب فراموش کرکے روانہ ہو گئے۔

خاتون اپنے لئے کھانا بنانے باورچی خانہ پہنچتی ہے تو دیکھتی ہے کہ ایک با ریش بزرگ ہاتھ میں پکڑے بڑے برتن کی مدد سے تھیلے میں سے آٹا نکال کر دوسرے تھیلے میں بےدردی سے منتقل کرنے میں جتا ہوا ہے وہ چیخ کر پوچھتی ہے: "تم کون ہو اور یہ کیا کر رہے ہو؟"

بزرگ فرماتے ہیں: "میں ان مہمانوں کے رزق کا جو حصہ یہاں ڈال کر گیا تھا، وہی واپس لینے آیا ہوں اور روز، روز آوں گا یہاں تک کہ تو مفلسی کی انتہا تک پہنچ جائے"۔

امی، ابو کے انتقال کیساتھ ہی کہانی والے بزرگ نے ہمارے گھر کا بھی چکر لگانا شروع کر دیا میں آنسو بھری آنکھوں سے بے بسی کیساتھ دیکھتی رہی وہ بار بار آتے تھے مجھ سے نظریں چراتے تھے سب سمیٹ سمٹا کے رخصت ہو جاتے۔

کئی سالوں بعد انہیں دیکھا ہے اور روز اپنے گھر کا چکر لگاتے دیکھ رہی ہوں، پہلے جب رزق نکالتے انہیں دکھی نظروں سے دیکھتی تھی تو ان کے آنکھوں میں بھی آنسو ہوتے تھے نہ جانے کیوں وہ مجھ سے نظریں چرا جاتے شاید ابو کے انتقال کا سب سے زیادہ دکھ انہیں بزرگ کو پہنچا تھا۔

اب کئی برسوں کی مایوسی اور نا امیدی کے بعد انہیں اچانک اپنے گھر دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سما رہی، کیا دیکھتی ہوں کہ بزرگ کے چہرے پہ سرخی ہے آنکھوں میں چمک ہے اور چہرے پہ ایسی مسکراہٹ جو پہلے کبھی دیکھی ہی نہیں تھی۔ وہ پہلے والے دکھ کا شائبہ تک نہیں۔

اب بزرگ روز آتے ہیں رزق کے ڈھیر لگاتے ہیں میرے سر پہ دست شفقت رکھتے ہیں جلد ہی دوبارہ آوں گا روز، روز آوں گا کہتے ہیں رخصت ہو جاتے ہیں۔ نہ جانے وہ بزرگ میرے علاوہ کسی اور کو نظر کیوں نہیں آتے؟

بعض لوگوں کو صرف اپنے ہی رزق کی فراوانی کیوں نظر آتی ہے؟ انہیں اپنے علاوہ ہر کوئی بھوکا ہی کیوں نظر آتا ہے یہاں تک کہ انہیں اپنے ہاتھ کا نوالے تک چھن جانے کا اندیشہ رہتا ہے؟ خدا کا واسطہ ہے ایسی گھٹیا سوچ اپنے پاس ہی رکھیں کوئی کسی کے پیسوں کا بھوکا نہیں ہے۔ کوئی کسی کا رزق نہیں چھین سکتا نہ ہی بناء کسی مفاد کے کسی کے گھر دانے ڈال کر آتا ہے۔ یہ رشتے دار کھا گئے، کھا گئے کا ورد آپ کے گھر سے رزق تیزی سے کھاتا جاتا ہے یہاں تک کہ جیتے جاگتے انسان تک کو کھا جاتا ہے۔

آپ کو صرف ایک ہی نصیحت ہے کوشش کریں اس رزق ڈالنے والے بزرگ کو آپ کے گھر کا رستہ رزق کی فراوانی کیلئے بھی نظر آجائے۔ ورنہ مفلس کرنے کیلئے تو وہ روز، روز آتے ہی ہیں اور وہ دن بھی دور نہیں جب رزق کیساتھ، ساتھ آپ کو بھی اٹھا کر لے جائیں۔ اور آپ ورد ہی کرتے رہ جائیں کھا گئے، کھا گئے۔

بہرحال ماہ مارچ میرے سخی باوا کی برسی کا مہینہ ہے۔ ان کے بلندئی درجات واسطے دعا فرما دیں۔

Check Also

Jaane Wale Yahan Ke Thay Hi Nahi

By Syed Mehdi Bukhari