Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syeda Narjis Kazmi
  4. Ba Waqar Khawateen

Ba Waqar Khawateen

باوقار خواتین

ابتدائی دور اسلام میں ایسی، ایسی خواتین شخصیات گزری ہیں جن کے بارے میں اگر ذرا سی تحقیق کی جائے تو سب حیرت سے دنگ رہ جائیں۔ ہمیشہ میرے دل میں خیال آتا کہ یہ واقعات ہم سے کیوں چھپائے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے پہلے میرے ابو نے مجھے بتایا کہ مردوں کے اس معاشرے میں خواتین کی جرات و شجاعت کی بات کرنا مرد کیلئے نا قابل برداشت ہے دوسرا یہ کہ اس طرح خواتین کو آزادی دینی پڑ جاتی ہے جو کہ مرد کی انا پہ ضرب ہے۔ ورنہ نبی پاک ﷺ کے دور اور ان کے پہلے کے ادوار میں ایسی کئی شجاع مسلمان خواتین کے واقعات تاریخ کے صفحوں میں درج ہیں۔

قبل از اسلام عرب دور کے بارے میں ہم اپنے تعلیمی نصاب میں پڑھ چکے ہیں، عرب میں عورت کی حیثیت، لونڈیوں کی سی تھی جنھیں ایک جنس کے طور پہ استعمال کیا جاتا تھا۔ جن کا فرض صرف مرد کی خدمت اور ان کی جنسی طلب پوری کرنا تھا۔

اس دور میں اگر بیاہتا عورت سے کوئی معمولی سی بھی کوتاہی ہو جاتی تو مرد غصے میں آ کر عورت کو کہتا کہ آج کے بعد تو میری ماں جیسی، یعنی اگر میں تیرے ساتھ ازدواجی تعلق رکھوں، تو جیسے اپنی ماں سے زنا کروں اور اس طرح کہنے سے نہ صرف عورت اس مرد پہ ہمیشہ کیلئے حرام ہوجاتی بلکہ اس کا جینا بھی حرام کردیا جاتا (کیا خیال ہے آج کے دور میں بھی ایسا ہی نہیں ہے؟)۔

کسی گھر میں اگر لڑکی پیدا ہوجاتی تو بیٹیوں کی پیدائش پہ مردوں کے چہرے غصے سے سیاہ پڑ جاتے۔ بیٹی کا پیدا ہونا گالی تھا۔ اسی لئے پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دی جاتیں۔ (یہ اور بات کہ آج کے دور میں بھی اکثر مرد نخوت سے یہ الفاظ ادا کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ دور اچھا تھا جب لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی دفن کر دیا جاتا تھا)۔

بہرحال سب سے پہلے مگر مختصر ذکر دور جہالت کی مضبوط اور خود مختار خاتون ملکہ نہیں ملیکتہ (ملکہ کی جمع) العرب بی بی خدیجہؑ کا کروں گی جو کہ نبی پاک ﷺ کی سب سے زیادہ چہیتی زوجہ محترمہ، دوست دکھ، سکھ کی ساتھی اور واحد خاتون کہ جن کے بطن سے دو اولادوں نے بھی جنم لیا ایسی مدبر و چاھی جانے والی خاتون کہ ان کی رحلت پہ نبی پاک ﷺ نے اس سال کو حزن کا سال قرار دے دیا۔

کیا وجہ تھی کہ نبی پاک ﷺ نے اپنے لئے ایک پتی پرورتا قسم کی عورت کی بجائے ایک مضبوط کردار والی با اعتماد اور ایسی خاتون کا انتخاب کیا جو عرب کی مشہور و معروف بزنس ویمن تھیں۔ ایسی کاروباری سوجھ بوجھ رکھنے والی خاتون جن کا کامیاب بزنس دور دراز کے ملکوں میں پھیلا ہوا تھا قبیلہ بنی خویلد عرب کا مشہور اور صاحب ثروت قبیلہ تھا۔ ان کا کردار انتہائی شریفانہ اور مہذب تھا۔ اسی وجہ سے پورے عرب میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا۔ (کسی دن بی بی خدیجہ کے والد گرامی جناب خویلد کے حوالے سے تفصیل سے لکھوں گی)۔

نبی پاک ﷺ تجارت کی غرض سے دوسرے ممالک جاتے تھے کسی طرح بی بی خدیجہؑ کو آپ کی ایمانداری کی خبر ہوئی مشورہ کرکے اپنا کچھ سامان بھی نبی پاک ﷺ کے حوالے تجارت کی غرض سے کیا اور آپ کی ایمانداری سے بے انتہاء متاثر ہوئیں اس دور کے عربوں میں عورت کا مرد سے پردے کا رواج نہ تھا۔ بی بی خدیجہ نے اپنی ایک خاص کینز سے اپنے دل کی بات کردی۔ کنیز بہت خوش ہوئیں بولیں بی بی آپ کہو تو میں رشتے کی بات چلاوں آپ نے اجازت دی نکاح کا پیغام لے کر در رسول ﷺ تک پہنچیں۔

آپ بھی بی بی خدیجہؑ کے پر وقار انداز اور شریفانہ رویے سے متاثر تھے، آپ ﷺ خواتین کو کمزور یا کینز کی شکل میں نہیں بلکہ باوقار اور پر اعتماد دیکھنا چاھتے تھے (یہ آپ کے بعد آنے والے آپ کے خانوادے کے واقعات سے بھی ثابت ہوتا ہے)۔ آپ ﷺ نے فرمایا میں اپنے واحد بزرگ اپنے چچا ابو طالبؑ سے مشورہ کرلوں۔ چچا جان سے مشورہ کیا جناب ابو طالبؑ بے انتہاء خوش ہوئے کہ بی بی خدیجہؑ کے خاندان کے وقار اور بی بی کے کردار سے خوب واقف تھے۔ اس دور میں بی بی خدیجہؑ سے نکاح کیلئے عرب قبیلوں کے بڑے بڑے سردار خواہش مند تھے۔ مگر بی بی خدیجہؑ ان سب کو ہی انکار کر چکی تھیں۔

جناب ابو طالبؑ کے ذریعے ہی رشتہ طے ہوا۔ آپ ہی نے نکاح پڑھایا اور اس طرح بی بی خدیجہؑ نبی پاک ﷺ کے نکاح میں آگئیں۔ آپؑ عرب کی لونڈی غلام قابل ترس عورتوں سے ہٹ کر اس دور کی جدید رعب دار سب سے بڑی اور کامیاب کاروباری خاتون شخصیت تھیں جو نبی پاک ﷺ کا انتخاب ٹھہریں اور تاریخ گواہ ہے کہ عربوں میں کئی، کئی شادیوں کا رواج ہونے کے باوجود جب تک بی بی خدیجہؑ زندہ رہیں نبی پاک ﷺ نے کسی دوسری عورت کو اپنی زندگی کا ساتھی نہ چنا اور وجہ صرف یہ کہ آپ نے ہر قدم پہ اپنے شوہر نبی پاک ﷺ کا ساتھ دیا حتی کہ اپنی ساری دولت اپنے شوہر کے دین پہ وار دی۔

بی بی خدیجہؑ اس دور جہالت کے عربوں میں بیٹی کی بہترین مثال کا زندہ ثبوت تھیں۔ اسی لئے ہی آپ بی بی فاطمہؑ کی پیدائش پہ نبی پاک ﷺ کے ساتھ اس دور کے رسم و رواج کے خلاف ایسا ڈٹیں کہ کسی کو جرات نہ ہوئی کہ آپ سے بیٹی کو زندہ درگور کرنے کا مطالبہ تسلیم کروا سکتا۔

لوگوں نے نبی پاک ﷺ سے اگر کچھ سنا تو صرف یہ کہ "فاطمہؑ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جس نے اسے تکلیف پہنچائی اس نے مجھے اذیت دی"۔ اور یہی بی بی فاطمہؑ نہ صرف اپنے باپ کی طرف سے "ام ابیہہ" یعنی اپنے باپ کی ماں کہلائیں بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے بھی "الکوثر" اور آیتہ تطہیر کی وارث ٹھہریں۔ ایک بہترین بیوی اور پھر اکلوتی بیٹی کی ماں کی حیثیت سے سارے عرب نے دیکھا کہ آپ نے اپنی چند سالہ زندگی میں اپنی بیٹی بی بی فاطمہؑ کی ایسی تربیت کی کہ آگے آنے والی اولادیں آج بھی اپنے جد کا نام زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

واقعہ کربلا کے بعد بی بی خدیجہؑ کی نواسی بی بی زینبؑ واحد خاتون تھیں جو اپنے بیمار بھتیجے کے ساتھ کبھی عراق تو کبھی شام کے بازاروں میں پھرائی گئیں۔ جہاں، جہاں سے گزریں اپنے جد ﷺ کے دین کی انمٹ مہر اس انداز میں لگاتی چلی گئیں کہ ایک، ایک فرد کے منہ میں صرف میرے مولا حسینؑ کا ہی ذکر جاری رہا۔ ایسی جاہ و جلال والی خاتون کو دیکھ کے کسی نے آپ کو رسول زادی ﷺ سے مشابہہ ٹھہرایا تو کسی کو آپ میں عرب کی سب سے مضبوط خاتون بی بی خدیجہؑ کی جھلک نظر آئی۔ کوئی آپ کو رسول پاک ﷺ جیسی کہتا تو کوئی کہتا کہ یہ بی بی زینبؑ نہیں علی مرتضیؑ ہیں۔ بس جد یزید ذلیل و خوار ہوتا گیا اور جد حسینؑ و زینبؑ کا دین مضبوط تر۔

تحریر کی طوالت کے پیش نظر بی بی زینبؑ کی زندگی کا احوال اپنی اگلی آنےوالی تحاریر میں کروں گی کہ خواتین کے حوالے سے یہ، آج کے دور کی ایک اہم ضرورت ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مولا حسینؑ تو شہید ہو چکے تھے۔ مگر عرب کی جری خاتون اپنے نانا کا دین اپنے ناتواں کندھوں پہ اٹھائے پوری دنیا کو دکھاتی رہیں۔ یہ احسان ہے مسلم امہ پہ ایک خاتون کا جو لاچار تو ہے مگر باطل کے خلاف آخر وقت تک ڈٹی ہوئی ہے۔ بے پردہ کرکے بدقماشوں کے بازاروں میں تو پھرائی جاتی رہی ہے، مگر اپنے نانا ﷺ کا دین کسی کو لوٹنے نہیں دے رہی۔

عورت کو اس کا اصل مقام نہ دینے والو، دین سے انحراف اور اس میں ردوبدل کرنے والو آو دیکھ لو! رسول خدا ﷺ کے گھر کی ایک شریف کم گو اور باپردہ عورت نے بچا لیا تمہارے اسلام کو۔ صرف ایک نبی زادی ﷺ عورت 1400 سالوں سے آج تک دین اسلام کی حفاظت کرتے ہوئے دنیا بھر کے لوگوں کو چیلنج کر رہی ہے، للکار رہی ہے۔

مولا ہمیں اپنے دین کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Check Also

Mulazmat Pesha Khawateen Aur Mardana Chauvinism

By Najeeb ur Rehman